Sunday, 18 October 2015

علم یا سیاه جھنڈا اور آغا سید علامه شرف الدین موسوی کا نظریه


(اصلاح شیعت پرآغا صاحب کی لکھی گئی سب سے پہلی کتاب سے اقتباس)



سیاہ جھنڈا/علم

"شیعان حیدر  کی دنیا  و آخرت کی پہچان ہے،دنیا میں دیگر قوموں کے سر خرو ہونے اور قبر میں منکر و نکیر کیلے تعارف ہے۔حضرت امام حسین ع کے علمدار حضرت عباس سے منسوب یہ سیاہ جھنڈا ہر امام بارگاہ پر نصب کیا جاتا ہے۔اسی طرح بہت سے شیعہ گھروں پر بھی یہ سیاہ جھنڈا لہرا رہا ہے۔اسے عزادار علم کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں جھنڈے کو علم کہنا صرف یہاں کی وضع کردہ اصطلاح ہے جب کہ پیغمبر اکرم ص،امیرالمومنین ع،امام حسین ع نے جب جھنڈے کا ذکر کیا تو اسے "لوا" اور "رایہ" کہا ہے۔شاید بعض علماء ،ماہرین صرف و نحو و اصول کہیں کہ اس میں کیا حرج ہے مجاز جائز ہے ہم بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں،کیونکہ جہاں حلال و حرام میں تغیر و تبدیل جائز ہے ہو تو الفاظ کی تبدیلی میں کوئی حرج نہیں رہتا،بعض اس علم کو  عقائد میں شمار کرتے ہیں چنانچہ دینی مدارس سے بھگوڑے یا کچھ عرصہ پڑھنے والوں کو عمامہ و عبا پہنا کر کہلوایا جاتا ہے یہ جھنڈا ہمارا مذہبی نشان ہے۔ اسی طرح شیعہ دینیات کے ترتیب دینے والوں نے منکر و نکیر کے سوالات کے  جواب میں لکھنا شروع کیا ہے کہ یہ جھنڈا ہمارا  نشان ہے۔

پہلے زمانے میں مجلس عزائے امام حسین ع میں عزاداروں کو کربلا میں حضرت ابوالفضل عباس ع کی شہادت کی یاد دلانے کے حوالے سے پرچم کا ذکر ہوتا تھا رفتہ رفتہ جب مجلس عزا نے ایک نئی شکل و صورت اختیار کی تو اس علم کو جلوس میں لایا گیا۔سابق زمانے میں اس کا رنگ سیاہ ہوتا تھا لیکن چند سالوں سے اس کے رنگ شکل ،قد و قامت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔کیونکہ جتنا مفاد پرستوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اسی تناسب سے اس کی شکل و صورت  اور تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔

جھنڈے کا مقصد لشکر کو اپنے گرد جمع کرنا تھا اسی طرح جلوس میں بھی لوگوں کو جمع کرنے کی خاطر ہوتا تھا۔لیکن جب لوگون نے اس جھنڈے کی تھیلی میں لوگوں سے نذروات لینا شروع کیں تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔رفتہ رفتہ یہ جلوسوں سے واپسی کے بعد ہمیشہ کیلے امام بارگاہوں میں نصب ہونا شروع ہوا۔اور اس کے نیچے ایک صندوق رکھا جانے لگا۔تاکہ عقیدت مند اس میں اپنی نذر و نیاز ڈالیں۔اب علم کربلا کی یاد دہانی کے بجائے صندوق نذر و نیاز کی نشانی بن گیا ہے۔پریشان حال لوگ اپنے مسائل و پریشانیوں کی خلاصی کیلے اس میں پیسہ ڈال کر اپنی پریشانی کے دور ہونے کے معتقد ہوئے ہیں۔کیونکہ ایک گروہ نے اس علم سے حاجتیں،نیازیں پورا ہونے کا پروپیگنڈا شروع کیا اور وقتا فوقتا ساحرانہ طور پر بناوٹی معجزات کا بھی چرچا کیا۔ دور  جاہلیت میں بتوں کی انتظامیہ بتون کے پیچھے کسی آدمی کو بٹھاتی اور وہ آنے والون سے اپنے نذر و نیاز کی بھیل مانگتا۔ جس کے نتیجہ میں بت پرست خواتین یہاں زیورات چھوڑتے اونٹ ذبح کرتے۔شاید انہی کی پیروی کرتے ہوئے آج کل یہ کام ریکارڈنگ اور مختلف طور طریقوں سے انجام پا رہا ہے۔

بعض علماء نے تو ہاتھ ہلا کر کہا،اس جھنڈے کو معمولی نہ سمجھنا،اسے ایک کپڑے اور لکڑی کا ڈنڈا نہ سمجھنا۔مجھے بھی ان سے اتفاق ہے یہ جھنڈا کوئی معمولی جھنڈا نہیں،کیونکہ اسے کوئی بھی چرسی ملنگ،فٹ پاتھ یا سڑک کے دوراہے پر لگائے تو یہ پوری قوم کی عزت و وقر کا مسئلہ بن جاتا ہے۔اس جھنڈے  اور گھوڑے کی اتنی اہمیت ہے کہ اسے اب تو بین الاقوامی استعمار نے بھی تسلیم کیا ہے۔وہ اس فیصلے پر پہنچے ہیں اس قوم کو ایک جھنڈا اور گھوڑا دے کر ان کے ملک بلکہ مذہب کو بھی خریدا جا سکتا ہے۔

 اس جھنڈے کا پس منظر کچھ یون ہے:

میدان کربلا میں دیگر جھنڈون کی مانند لشکر حسین ع کا بھی ایک پرچم تھا۔چنانچہ کتب و مقاتل میں بھی آیا ہے کہ امام حسین ع نے اپنے لشکر کے دائیں طرف کے لوگوں کیلے ایک  پرچم مخصوص کیا  اور یہ پرچم زہیر ابن قیس کو عنایت کیا اسی طرح بائیں جانب کا پرچم جناب  حبیب ابن مظاہر کو عنایت کیا اور ان پرچمون کے علاوہ ایک اور پرچم لشکر کے مرکز میں تھا جسے قطب و محور سمجھا جاتا تھا۔ اسے اپنے بھائی حضرت ابوالفضل عباس کو دیا۔ تمام کتب مقاتل میں آیا ہے "واعطی رایۃ الی الاخا العباس" جو اس پرچم کو اٹھانے کی تمام تر امتیاز و صلاحیت رکھتے تھے۔ اس پرچم پر زمان و مکان کے گزرنے کے بعد اثر اندا ہونے والے امتیازات  پر بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے

1- اس پرچم کے  رنگ اور قد و قامت کے زاویہ سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ پرچم اپنی اصلی امتیازات سے دور نہ ہو۔
2-حضرت امام حسین ع اور حضرت ابوالفضل عباس ع کی شہادت کے بعد اس پرچم کی حیثیت اور تاریخ کیا  رہی ہے۔
3- اس پرچم کو دوبارہ بلند کرنے اور اس پرچم کو اٹھانے والے افراد کی خصوصیات و شرائط کیا ہیں
4- اس پرچم کو تبرک کے طور پر مس کرنے اور اس سے اپنی حاجت کی برآوری کیلے رجوع کرنے کا عمل
5- اس پرچم کو نصب کرنا زمان و مکان کے حوالے سے اور اس کے بارے میں آئمہ طاہرین ع اور فقہاء و مجتہدین کی ہدایت و رہنمائی کیا ہے

پہلا نکتہ:
 تاریخ اسلام سے پہلے اور بعد میں ہونے والی جنگوں میں ملتا ہے پرچم سیاہ ہمیشہ دور جاہلیت میں نامناسب اور نفرت انگیز جگہوں پر نصب ہوتا رہا ہے۔اور اسی طرح اسلام کے مقابل جب مشرکین جنگ کیلے اسلام کے خلاف نکلتے تو ان کا پرچم سیاہ ہوتا تھا۔ پیغمبر اکرم ص کے بعد جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کے پرچم کا رنگ سیاہ تھا۔اسی لئے اس پرچم کو دیکھ کر صحابی امیرالمومنین ع ،عمار یاسر نے فرمایا  میں اس سیاہ پرچم کے خلاف لڑتا رہا ہوں اور اب بھی لڑ رہا ہوں۔جب بنی امیہ کے خلاف بنی عباس نے تحریک چلائی تو ان کیلے تحریک  چلانے والے ابومسلم خراسانی کے لشکر کے پرچم کا رنگ  بھی سیاہ تھا۔چنانچہ امام جعفر صادق ع نے عبداللہ بن حسنسے فرمایا کیا آپ نے ابوسلمی خلال سے کہا تھا کہ سیاہ پرچم بلند کریں،لہذا واضح ہوا کہ سیاہ پرچم کبھی بھی شیعوں کی نشانی نہیں رہا۔

دوسرا بکتہ:
یہ پرچم جو آج کل پرچم عباس ع کے نام سے معروف ہے یہ نسبت حقیقت سے عاری ہے کیونکہ یہ پرچم حسین ع کا ہے۔چنانچہ کتب مقاتل میں آیا ہے کہ امام حسین ع نے اپنا پرچم حضرت ابوالفضل عباس ع کو دیا جس طرح  جنگ خیبر میں پیغمبر اکرم ص نے اپنا پرچم علی ع کو دیا۔ جنگون میں پرچم ہمیشہ قائد جبگ کا ہوتا ہے۔اور کربلا میں قائد میدان امام حسین ع تھے۔ بلکہ درحقیقت یہ پرچم اسلام ہے جسے امام حسین ع نے اٹھایا تھا اور اس کے برعکس جو پرچم عمر سعد نے اٹھایا وہ پرچم کفر و مشرکین تھا لہذا اس پرچم کو حضرت عباس ع سے منسوب کرنا درحقیقت اصل صاحب پرچم کو دو درجہ نیچے لانا ہے ایک درجہ اسلام اور دوسرا درجہ امام وقت۔

تیسرا نکتہ:
یہ پرچم اپنی لمبائی کے لحاظ سے اس وقت ایک مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکا ہے جو کسی تفسیر کا محتاج نہیں۔جنگوں میں ایک صاحب شجاعت پرچم کو اٹھاتا تھا تاکہ لوگ اس کے گرد رہیں اور جنگ کے بعد اس کی طرف لوتیں لیکن موجودہ پرچم اتنا بلند اور وزنی ہے کہ کئی افراد اسے اٹھاتے  ہیں اور بعض جگہون پر تو اسے لٹا کر لے جایا جاتا ہے یہ مضحکہ خیز صورتھال دین و مذہب کے نگہبان علماء کی عدم توجھی کی بنا پر پیدا ہوئی ہے کیونکہ وہ اپنے مفاد کی خاطر اس کے خلاف آواز  نہیں اٹھاتے یا خاموشی اپنائے ہوئے ہیں۔

چوتھا نکتہ:
پرچم ہمیشہ میدان جنگ میں مرکز قوت  و قدرت کیلے اٹھایا جاتا ہے تاکہ منتشر توانائیاں ایک جگہ جمع ہو سکیں ،کربلا میں شہادت امام حسین ع اور اسارت اہل بیت ع کے بعد یہ پرچم بلند نہیں ہوا بلکہ اہل بیت ع کے آگے جو پرچم بلند تھا ،وہ پرچم کفر و باطل تھا،اہل بیت ع نے مدینہ واپسی تک کوئی پرچم بلند نہیں کیا۔ حتی کہ اس کے بعد بھی کسی امام نے اس پرچم کو اپنے گھر پر نہیں لگایا،اگر کسی کو کوئی تاریخی سند ملے تو ان سے گزارش ہے کہ اسے صفحہ قرطاس پر لائے،صرف یہ کہنا  کافی نہیں کہ ہر قوم کا ایک پرچم ہوتا ہے۔کیونکہ یہ جملہ بھی واقعیت سے مطابقت نہیں رکھتا،کیونکہ پنجابی ،سندھی،بلوچی یا عرب وغیرہ کا پرچم نہیں ہے پرچم صرف حکومتوں اور سیاسی احزاب کا ہی ہوتا ہے اگر یہ پرچم شیعون کی ہوتا تو اس ملک میں شیعہ تنظیمیں اپنا الگ الگ پرچم نہ بناتیں لہذا پرچم کیلے بہترین  و موزوں جگہ میدان جنگ ہی ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوا پرچم ایک مرکزی قوت ہے اور جب صاحب پرچم اسیر ہوجائے تو پرچم اٹھانے کی صلاھیت نہیں رکھتا میدان کربلا میں شہادت امام حسین ع اور اسیری اہل بیت ع کے بعد سید الساجدین ع نے کوئی پرچم بلند نہیں کیا۔اسی طرح جب کسی ملک میں کوئی عظیم شخصیت وفات پاتی ہے یا کسی بڑی آفت یا نقصان کا سامنا ہو تو  وہ اپنا پرچم چند دنوں کیلے سرنگوں کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں  اس کے برعکس شیعہ  قوم جتنے مسائل و مصیبتون میں گرفتار ہوتی ہے اتنا ہی اس پرچم کو بلند کیا جاتا ہے۔جتنی اسلام پر مصیبت پڑتی ہے اتنا ہی اس کو بلند کیا جاتا ہے گویا اس پرچم کا اسلام سے کوئی رشتہ ہی نہیں۔اسی لئے دین و مذہب کا مذاق اڑانے والی سیاسی پارٹیوں کے امیدوار بھی ووٹ حاصل کرنے کی خاطر اس پرچم کو اپنے گھر کی چھت پر بلند کرتے ہیں۔

پانچوان نکتہ:
یہ پرچم رمز وحدت امت ہے یعنی تمام افراد اس پرچم کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اس پرچم کے حامل شخصیات کی یہ منطق تھی کہ تمام امت امات واحدہ ہے لہذا انہوں نے بغیر کسی تفرقہ اور امتیازات سے ہٹ کر اس پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دی،ائمہ طاہرین نے ہمیشہ شیعون کو یہ حکم دیا وہ خود کو اسلام میں حل کر کے زندگی گزاریں یا اسلام کی چھتری کے نیچے زندگی گزاریں انہیں اپنا الگ تشخص قائم کرنے سے منع کیا بلکہ شیعوں کا تشخص اسلام کو ہی قرار دیا ہے۔
خدا وند متعال نے قرآن کریم میں انسان کو اپنے جیسے انسان سے حاجتیں طلب کرنے سے منع فرمایا۔اس منطق کے تحت کہ یہ لوگ کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ ۔جب ایک عاقل سمجھدار انسان کسی کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا تو ایک جھنڈا جو خود کھڑا نہیں ہو سکتا وہ کیسے انسانوں کی حاجتیں پوری کرے گا۔یہ جھنڈا جو سریون اور سیمنٹ سے بلند ہوا ہے اگر اسے گرا دیا جائے تو دوبارہ بننے میں یہ ان وسائل اور ساز و سامان کا محتاج ہے۔اگر ایک انسان عاقل اس سے جا کر حاجتی طلب کرے تو کیا اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز بات کوئی اور ہو سکتی ہے؟ اس پرچم  کے پرچار کرنے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں تو اپنے قلم و بیان سے واضح کریں کہ اس کے نیچے صندوق کیوں رکھے جاتے ہیں۔؟ اھر خواہش مند حضرات حضرت عباس ع کے نام پر اپنی نیاز اس میں ڈالتے ہیں تو سوال ہئ کہ اس سے جمع ہونے والی آمدنی کس حد تک  دین اور قیام امام حسین ع کے مقصد و ہدف کی سربلندی کیلے خرچ کی جاتی ہے۔ جبکہ یہ رقوم کوچنگ سینٹر،کمپیوتر سینٹر اور اس جیسے کامون پر خرچ کی جاتی ہے حالانکہ ان سرگرمیوں کا دین حضرت عباس ع سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔اس جھنڈے کو مقام و مرتبت دلانے کیلے مندرجہ ذیل نکات کے ذریعے پروپیگنڈا کیا گیا ہے:

1- اس جھنڈے کے چاہنے والون نے کہا،اس سے ہماری حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔
2-اگر اس کے خلاف کسی نے ذرا بھر نقد و انتقاد کی زبان کھولی تو علم اس کی گردن تور دے گا۔اسے عاقبت دردناک کا سامنا ہوگا،جیسے مشرکین بتوں کو برابھلا کہنے والوں سے کہتے تھے،تمہیں ہماری بتوں کی بددعا لگی ہے۔
3- بعض مصالحت آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہتے ہیں ،کم از کم ان کے معتقدین کے سامنے اہانت آمیز جملے یعنی اس کو جھنڈا،کپڑا نہ کہو اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔لیکن یہ عقل و شرع دونون لحاظ سے صحیح نہیں،خداوند عالم نے اپنے انبیاء ع کے ذریعے بت پرستون کے بتوں کے ساتھ جو رویہ رکھا وہ ان کے نظروں سے غائب ہے۔بنی اسرائیل  جن کے دلون میں گائے کی مھبت موجزن تھی ،موسی ع نے انہی گائے کو ذبح کرایا،سامری کے گوسالے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کی راکھ کو ہوا میں اڑایا،پیغمبر اکرم ص نے کعبے  میں موجود بتوں کو اپنے عصا سے پاش پاش کیا۔"

(صفحہ 64 و 65 عقائد و رسومات شیعہ
علامہ آغا علی شرف الدین بلتستانی)

تابوت شبیه اور آغا علامه سید علی شرف الدین موسوی



تابوت نکالنا

"یہاں عزاداری کا مظہر ایک تابوت کے پیچھے چند لوگوں کا رونا اور پیٹنا ہے۔ان کا کہنا کہ ہم اس عمل سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے وقت کے امام مظلوم کا تابوت ہے اور ہم اس کی مصیبت میں رو پیٹ رہے ہیں۔دنیا کا کوئی بھی عاقل باشعور انسان خاص طور پر غیر مسلم یہ نہیں سمجھے گا کہ اس جنازے کے پیچھے جانے والے امام حسین ع کی مصیبت منا رہے ہیں۔کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ واقعہ کربلا آج سے تقریبا 1400 سال پہلے وجود میں آیا ہے تو پھر آج اس دور میں کسی امام کا جنازہ اٹھایا جا رہا ہے۔"

صفحہ 63 کتاب عقائد و رسومات شیعہ،
علامہ آغا علی شرف الدین بلتستانی حفظہ اللہ

ذوالجناح اور آغا سید علی شرف الدین موسوی کا نظریه


ذوالجناح

عزادری امام حسین عہ میں شبیہ سازی کا ایک کردار امام حسین عہ کی سواری ہی۔ جو کہ امام حسین عہ کی شہادت کے بعد زین خون سے آلودہ ہو کر خیام کی طرف آئ، اہل حرم خیمے سے نکل آئے اور ایک کہرام جیسی مصیبت برپا ہوئ، اس سواری کی شبیہ بنا کر جلوس عزا میں کب لائ گئ اس کی کوئ دقیق تاریخ معلوم نہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ خود جلوس عزا آل بویہ کی حکومت میں ناکالا گیا ۔پوری دنیا میں جہاں جہاں اس گھوڑے کی شبیہ نکلتی ہے وہاں اسے چند گھنٹوں کے لیے استعمال میں رکھا جاتا ہے، لیکن بر صغیر کے عزادروں کو اس شبیہ سے اتنا لگاو ہے یا یہ ان کے حیوان پرست ہماسائیوں کی صحبت کا اثر ہے، کہ انھوں نے اسے اتنا مقام و اعزاز دیا جو کسی عالم و عابد کو بھی حاصل نہیں ہوا۔اس کے لئے املاک، جائداد،خادم وغیرہ وقف کرنا اپنی ایک جگہ پر ایک موضوع ہے،اس سے حاجتیں مانگنا اس وقت کا اہم موضوع ہے، اسی طرح اس کے بت بنا کر امام بارگاہوں اور مسجدوں میں رکھنا ایک نیا موضوع ہے۔ اس گھوڑے کو آج کل مولا بھی کھتے ہیں۔لیکن پہلے ذوالجنح کے نام سے پکارتے تھے،یعنی “ پروں والا گھوڑا“ اس کو پروں والا کھنے کی دلیل میں وہ روایت پیش کی جاتی ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہیں، وہ کچھھ یوں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ نے اپنے کمرے میں ایک پروں والے گھوڑے کی تصویر آویزاں کی ، جب ان سے پیغمبر اکرم صہ نے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا یہ حضرت سلیمان عہ کے گھوڑے کی تصویر ہے جس پر آپ صہ خاموش ہو گئے۔آپ صہ کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل غلط نہیں تھا۔ ماتم داروں کو اپنے اس عمل کی دلیل کے لیئے اس رویت کو پیش کرتے سن کر ہمیں حیرانگی ہوئ کہ ویسے تو حضرت عائشہ کا نام آتے ہی ان کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں۔ لیکن اپنے گھوڑے کی دلیل کے لیئے یہ بڑے ذور و شور سے ان کا نام لیتے ہیں تاکہ ان کی گھوڑا پرستی ثابت ہو جائے۔

اس گھوڑے کو پروں والا اس لیے کہتے ہیں کہ بھت تیز رفتار تھا ہاں یہ صفت اہمیت کی حامل ہے کہ میدان جنگ میں ایسا گھوڑا ہونا چاہیے جو دشمن کا پیچھا کر سکے یا اگر خود بھاگنا ہو اور دشمن پیچھے ہو تو ان کی گرفت میں نہ آئے، لیکن جب حر جعفی نے امام حسین عہ کے سامنے گھوڑے کی ایسی تعریف کی تو آپ نے اسے مسترد کیا۔

یہ گھوڑا وفادار ہے، اس لحاظ سے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔اس منطق میں کسی قسم کا وزن نہیں ہے کیونکہ ہر گھوڑا اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔ امام حسین عہ جس گھوڑے پر سوار تھے وہ ان کا وفادار تھا اور جس گھوڑے پر قاتلان امام عہ سوار تھے وہ ان کے وفادار تھے۔
اس گھوڑے میں ایک خاص صفت پائ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی اتنی قدر ومنزلت ہے ۔اس کے لیئے لاکھوں کی جائدادیں وقف کی جاتی ہیں اس کے سامنے نذریں پیش کی جاتی ہیں۔ وہ صفت یہ ہے کہ اس نے لوگوں کی نظریں امام حسین عہ سے موڑ کر اپنی طرف جذب کر لی ہیں۔اگر مغرب والوں کو اس کی اہمیت کا پتا چلتا تو وہ بھی اس کی حمایت میں مہم چلاتے۔

اس گھوڑے کی ایک صفت گس کی طرف شاید ماتم داروں نے توجہ نہیں کی کہ یہ ایک حیوان ہے۔اس پر شقی و سعید دونوں گروہ سوار ہوتے ہیں،ہاں جس گھوڑے پر مجاہدین دین و شریت کے دفاع کے لیئے سوار ہوتے ہیں وہ گھوڑا ان ماتم داروں سے بہتر ہے جو خداوند متعال سے عجز ونیاز کرنے کی بجائے گھوڑے سے سوال کرتے ہیں اور امام حسین عہ کی جگہ اس گھوڑے کو مولا کہتے ہیں۔

بعض اس گھوڑے کی دلیل میں کہتے ہیں کہ سورہ عادیات میں خداوند عالم نے گھوڑے کی قسم کھائی ہے، اور خدا جس چیز کی قسم کھائے وہ محترم ہوتی ہے لہذا اس کا احترام کرنے میں کوئ قباحت نہیں ہے۔ یہ منطق بھی بنیادی طور پر غلط ہے کیوں کہ خدا نے ہر قسم کے گھوڑے کی قسم نہیں کھائ بلکہ اس گھوڑے کی قسم کھائ ہے کہ جس پر میدان جنگ میں اہل حق سوار ہوتے ہیں۔وہ گھوڑا کیسے محترم ہو سکتا ہے جس نے میدان جنگ میں شرکت نہ کی ہو بلکہ اس کے اوپر فاسق و فاجر انسان اپنے کھیل کود یا ظلم و بربریت کے حصول کے لیئے سوار ہوئے ہوں یا جیسے بعض علاقوں میں پولو کے کھیل میں استعمال ہونے والے گھوڑے یا ایک عرصے سے عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے گھوڑے کیسے یہ منزلت پا سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں اہل تشیع سے تعلق رکھنے والوں سے ہٹ کر ہمارے خطے کے اہل تشیع نے امام حسین عہ کے نام سے منسوب گھوڑے کو ایک مقام و منزلت دی ہے اور اسے خاص نام “ ذوالجناح“ سے نوازا ہے اس کے بارے میں عقل و شریعت، قرآن و سنت اور فقہائے عظام کے رسالہ عملیہ کسی بھی جگہ کوئ سند نہیں ملتی۔اہل بیت عہ سے تعلق کا شرف و افتخار رکھنے والوں کے چہرہ سے اس بد نما داغ کو دھونے کے لئے اس سواری کے بارے میں چند زاویوں سے بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے:

١- تاریخی تناظر:- یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے حالت سفر یا جنگ میں سشمن سے نبرد آزمائ کے وقت ایک سواری کا ہونا ضروری ہے اور اسے فریق مخالف کے مقابلے میں ایک طاقت و قدرت سمجھا جاتا تھا اس لئے میدان جنگ میں فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا
(ا) پیادہ فوج (ب) گھڑ سوار فوج امام حسین عہ گرچہ اپنے والد کے ہمراہ جنگوں میں شریک رہے لیکن میدان کربلا میں چونکہ لشکر باطل کے مقابلے میں انتظام و انصرام کی لجام خود امام حسین عہ کے ہاتھھ تھی اس لیئے امام حسین عہ کے پاس ایک سواری کا ہونا حتمی تھا۔ جب ہم تاریخ و مقاتل کربلا پڑھتے ہیں تو امام حسین عہ کی سواری کے بارے میں مختلف ذکر ملتے ہیں لیکن یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ امام حسین عہ کے حالت سفر جس کا آغاز مدینہ سے ہوا اور کربلا پہچنے تک کسی ایک سواری کے نام کا ذکر نہیں ملتا-

الف-- صبح عاشور جب امام حسین عہ اپنے اصحاب کے ساتھھ لشکر اعداء سے خطاب کرنے گئے تو آپ عہ اونٹ پر سوار تھے
ب-- بعض مقاتل میں لکھا ہے کہ امام حسین عہ نیدان کربلا میں جنگ کے لیئے جس گھوڑے پر سوار ہو کر گئے یہ گھوڑا رسول اکرم صہ کی طرف سے آپ عہ کو ملا تھا اور اس کا نام “ مر تجز “ تھا
ج-- جب امام حسین عہ اپنی سواری کی زین پر رہ کر جنگ جاری نہ رکھھ سکے تو آپ عہ زمین پر اتر گئے اور آپ عہ کی سواری “ فرس “ آپ کے خیمے کی ظرف آگئی
د-- جب آپ عہ کے اہلیبیت نے آپ عہ کے گھوڑے کی آواز سنی تو خیمے سے باہر آگئے اور آپ عہ کے گھوڑے جس کا ذکر (لفظ جواد ) آیا ہے کی زین کی طرف دیکھا تو اہلیبیت نے فریاد و فغاں بلند کی-
ہ-- ذوالجناح دو کلموں کا مرکب ہے ایک “ ذو“ دوسرا “ جناح“ ذو عربی میں صاحب کو کھتے ہیں اور جناح پر یا بازو کو کہتے ہیں- سورہ انعام آیت ٣٨ سورہ شوریٰ آیت ٢١٥ سورہ حجر ٨٨ سورہ اسراء ٢٤ میں لفظ موجود ہیں- ذوالجناح یعنی صاحب پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سواری صاحب پر (اڑنے والی) تھی اس نام سے امام حسین عہ کی سواری کا ذکر تاریخی مقاتل میں کہیں نہیں ملتا بلکہ ایسا گھوڑا جا صاحب پر ہو اور اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو کربلا کیا کسی جنگ میں بھی اس سواری کا کوئ ذکر نہیں ملتا-
٢) :- دنیا کے کچھھ علاقوں میں اہل تشیع دسویں محرم کو ایک گھوڑے جس پر تیر کمان اور تلوار نصب کرنے کے علاوہ اس کی زین کو بھی خون آلود کر کے لاتے ہیں تاکہ ان واقعات کی منظر کشی کی جا سکے جو شہادت امام حسین عہ کے بعد پیش آئے لیکن یہ گھوڑا عصر عاشور کے بعد امام حسین عہ سے منسوب نہیں رہتا اور نہ ہی اس کو وہ مقام و منزلت حاصل رہتی بلکہ یہ اپنی عادی شکل میں پلٹ جاتا ہے لیکن ہمارے خطے میب جو مقام و منزلت اس گھوڑے کو دیا گیا ہے وہ ما فوق العقل و شریعت ہے- بعض اس کی سند میں مختلف منطق پیش کرتے ہیں جو اپنی جگہ مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہیں- جس طرح چکنے ہاتھھ کو پانی مس نہیں کر سکتا اس طرح ان کی منطق سے اس گھوڑے کو کوئ مقام و منزلت نہیں مل سکتی ہے۔ ان کی منطق کچھھ یوں ہیں:
بعضوں کا کہنا ہے کہ اس کی احترام کی علت امام حسین عہ سے منسوب ہونا ہے- اس سلسلے میں کسی چیز سے منسوب کی حیثیت اور احترام کے بارے میں وضاحت کی ضرورت ہے- نسبت کی دو اقسام ہیں: ١) نسبت حقیقی ٢) نسبت جعلی
١) نسبت حقیقی : حقیقی نسبت وہ ہے کہ واقعی منسوب ہو جیسے واقعی اس کا بیٹا ہے ، واقعی اس کی بیوی یا واقعی اس کا گھر ہےجس میں وہ قیام پذیر ہے ۔اسے نسبت حقیقی کہتے ہیں ،ہر منسوب چیز محترم نہیں ہوتی، جیسے حضرت نوح عہ کا بیٹا اور حضرت نوح عہ کی بیوی ان سے حقیقی نسبت کے باوجود کوئ افتخار نہیں رکھتے۔حضرت لوط عہ کی بیوی بھی محترم نہیں ہیں۔ خدا نے ان لوگوں کو اہل کفر کا نمونہ کہا ہے۔ تاریخ میں کہیں نہیں ملتا کہ آئمہ عہ جس گھر میں قیام پذیر تھے یا امام عہ کے ہاتھھ کا لگا ہوا کوئ درخت یا ان کا کوئ حیوان جس پر امام عہ سوار ہوئے ہوں لوگوں نے اسے وہ عزت وافتخار دیا ہو جو عام انسانوں کو بھی حاصل نہ ہو۔ بلکہ اس کے بر خلاف رسول اکرم صہ نے کعبہ سے منسوب حیوان (اونٹ) پر حاجی کو سوار ہونے کا حکم دیا-

٢) نسبت جعلی و اختیاری :- یعنی جس کا کوئ وجود ہی نہ ہو جیسے آج کل کے گھوڑے جن کو امام حسین عہ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، کسیکے نسبت دینے سے وہ چیز منسوب نہیں ہو سکتی- خداوند عالم نے قرآن میں دور جاہلیت میں رائج نظام “تبنی“ (یعنی کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہنا) کی نسبت کو باطل قرار دیا ہے مندرجہ ذیل آیات میں واضح ہیں:
الف) جن کو تم ماں کہتے ہو وہ واقعی ماں نہیں:- “ اور تمھاری وہ بیویاں جن سے تم ظہار کرتے ہو انھیں تمھاری واقعی ماں نہیں قرار دیا ہے“ (احزاب آیت ٤) “ تاکہ مومنین کے لئے منھھ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئ حرج نہ رہے“ ( احزاب آیت ٣٧)
ب) جن کو تم منہ بولے بیٹا کہتے ہو وہ تمھاری حقیقی اولاد نہیں ہو سکتے:- اور نہ تمھاری منہ بولی اولاد کو اولاد قرار دیا ہے “ (احزاب ٤) “ ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے“ (احزاب ٥) “ محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں “ (احزاب ٤٠)

جس بچے کو رسول اکرم صہ نے اپنی طرف نسبت دی تھی وہ بیٹا ان سے منسوب نہ ہو سکا تو ہمارا کسی حیوان کو امام حسین عہ کی طرف نسبت دینے سے وہ کیسے منسوب ہو سکتا ہے - ادیان سماوی میں تمام انبیاء سے لے کر رسول اکرم صہ تک خاص کر اسلام میں کسی مرنے والے حیوان کی نماز جنازہ پڑھنے کی کوئ دلیل ومنطق نہیں ملتی لیکن بلتستان(Baltistan) میں مستقل طور پر امام حسین عہ کے نام گھوڑا پالنے اور امام حسین عہ کے نام پر نکانے کے لیےخاص طور سے پنجاب سے ایک گھوڑا درآمد کیا گیا،معلوم نہیں وہ کس نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کا باقاعدہ استقبال ہوا اور گھر گھر لے جاکر اسے نہلایا گیا اور جس پانی سے اس کو نہلایا گیا اس کو جمع کر کے تبرک کے طور پر پیا گیا-

   قرآن کریم میں حضرت سلیمان عہ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ خدا کے حکم سے پرندوں کی آواز سنتے اور سمجھتے تھے۔ان کے علاوہ کسی نبی اور آئمہ عہ کے بارے میں کوئ روایت نہیں ملتی - قرآن و سنت اور نہ ہی جدید تحقیق سے یہ بات کشف ہوئ ہے کہ جانور انسان کی بات سنتے اور سمجھتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں بعض افراد اس حیوان کے کان میں منہ رکھھ کر اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں اگر یہ مذہب کا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے ؟

عراقی اسکالر احمد الکاتب کے جدید شیعه عقائد و نظریات



آقای احمد الکاتب کے عقائد(مکمل 50 نکات)

احمد الکاتب ایک مشہور عراقی اسکالر ہیں جن کی پیدائش کربلا مین ہوئے۔آپ کا تعلق اور سلسلہ جناب حبیب ابن مظاہر اسدی کے بھائی سے ملتا ہے جنہوں نے امام حسین ع کے ساتھ کربلا میں اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا۔آپ کی کتب اور مباحث عراق اور عالم اسلام میں بہت مشہور ہیں۔آپ کا شمار معتدل علمائے شیعہ مین ہوتا ہے(اثنا عشری کا لفظ ہم نے استعمال نہیں کیا)۔

ان کے عقائد و نظریات یہ ہیں:

1- ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔

2-ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ،یوم آخرت،ملائکہ ،آسمانی کتباور تمام انبیاء پر۔

3-ہم عقیدہ و منھج اسلامی کا التزام اور عبادات و احکام و اخلاق کو۔

4- ہم عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ قرآن میں آیا ہے۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا” الأحزاب 30
اور محمد ص کے بعد رسالت اسلامی ختم ہوا۔اور وحی کا نزول بھی آپ پر ھی ختم ہوا۔اور لوگ اب کتاب اللہ اور سنت صحیحہ اور عقل سلیم کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں۔

5- ہم ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮬﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽﺗﺤﺮﯾﻒ،ﺗﻼﻋﺐ،ﺍﻭﺭ ﮐﻤﯽﻭ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺷﮏﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺎ ﺧﻮﺩﺫﻣﮧ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ۔ : 
سورہ حجر آیت 9 ْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ” 
ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻗﺪﯾﻢ ﮐﺘﺐﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺿﻌﯿﻒ ﯾﺎﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕ روایات ھیں۔جن کو غلاۃ(شیعہ کا غلو کرنے والا طبقہ) نے اھل بیت ع کے نام سے گھڑا ھے.اور تاریخ میں علمائے شیعہ نے ان روایات پر تنقید اور ان سے لاتعلقی کا اظھار کیا ھے.افسوس کا مقام ھے کہ بعض شیعہ مخالف گروہ ان تاریخی جھوٹی روایات تحریف کو بنیاد بنا کر شیعوں پر تحریف قرآن کا الزام لگاتے ھیں.اور ان کو قتل کرنے اور کافر اور منحرف عقیدہ قرار دیتے ھیں(.جس کی بنیاد یھی من گھڑت غالیوں کے روایات ھیں.).

6- ہم رسول اللہ ص کے پاک صحابہ خصوصا مہاجرین و انصار اور اہل بیت ع کا احترام کرتے ہیں۔اور ان میں سے صالحین سے ہم راضی ہیں۔لیکن ہم ان سب کو معصوم بھی نہیں سمجھتے۔اور ہم ان پہ سب و شتم اور برائی منسوب کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔اور خصوصا حضرت سیدہ عائشہ ام المومنین کو سبکرنے کو۔اور ہمرا ایمان ہے کہ اللہ نے آپ کو بری کیا قضیہ افک سے۔

7- ﮨﻢ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﺍﺳﻼﻡ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﯾﻦ ﮨﮯجس میںﺳﯿﺎﺳﯽ،ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ کے احکام موجود ھیں۔جنﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺍﺧﻼﻕ ﺳﻠﯿﻤﮧ ﮨﮯ۔ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﻣﻨﺼﻮﺹ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎﺳﯿﺎﺳﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﻠﮯ اور اس پر کوئی معین نص موجودنھیں،ﭘﺲ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻧﻈﺎﻡﺷﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﯽﮨﮯ(تصور پیش کیاھے)۔ﺍﻭﺭﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ (اپنا حاکم) ﺍﻥﮐﮯ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯿﻠﮯ اختیار کرنے کی آزادی دی ھے ﻇﺮﻭﻑ ﺯﻣﺎﻧﯽ ﻭ ﻣﮑﺎﻧﯽﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ۔ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﻧﮯ ﮐﺴﯽﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﯿﻠﮯﻣﻨﺼﻮﺹ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ﭘﺲﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﻧﮯ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻧﭻﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ ﻣﻨﺘﺨﺐﮐﺌﮯ۔ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ،ﻋﻤﺮ،ﻋﺜﻤﺎﻥ،ﻋﻠﯽﻭﺣﺴﻦ، ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ. 

8- ہم اعتقاد نہیں رکھتے کہ امامت ایک ملحقہ جزو ہے نبوت کے ساتھ۔ یا یہ کہ اس کی تشکیل کیلے اس کی امتداد چاہیے۔اور نہ ہی ہم امامت کو اصول دین میں سے ایک اصل اور نہ ہی ارکان اسلام میں سے ایک رکن سمجھتے ہیں۔کیونکہ قرآن مجید نے اس کے بارے میں ذکر نہیں کیا۔اور لیکن یہ امامت ایک فرعی مسئلہ ہے جس کا شمار فقہ سیاسی میں ہوتا ہے۔ﺍﻭﺭ ﻇﻨﯽ ﺗﺎﻭﯾﻼﺕ ﺟﻮ ﮐﮧ اس سے متعلق ھیں وہ سبﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﯿﮟ۔

9- ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻋﻘﯿﺪﮦﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺴﯽ ﺍﻣﺎﻡ(ﺍﯼ ﺭﺋﯿﺲ ﺍﻟﺪﻭﻟﮧ ) کیلے معصوم ﮨﻮﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ،ﯾﺎ ﺍﺱﮐﻮ ﺍﻥ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻃﺮﺡﻭﺣﯽ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﯾﺎﺍﺱ ﮐﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﻖﺗﺼﺮﻑ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ،ﯾﺎ ﺍﺱﮐﮯ ﺍﻭﺍﻣﺮ(حکم) ﺭﺳﻮﻝ ﺹ ﮐﮯﺍﻭﺍﻣﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻭﺭ ﺍﺱﮐﮯ ﻧﻮﺍﮬﯽ (منع کرنا)ﺭﺳﻮﻝ ﺹ ﮐﮯﻣﻨﺎﮬﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭﻧﮧ ﮨﯽ ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻣﺖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﻮﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺣﺎﮐﻢﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﻨﺼﻮﺹ ﮨﻮ۔ﺍﻭﺭ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺒﮭﯽﺣﺠﺖ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ،ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔

-10 ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟﮐﮧ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ عﻧﻈﺎﻡ ﺷﻮﺭﯼﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﻮ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻟﮩﯽﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ،ﻧﮧ ﮨﯽﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﺎ ﮐﮧﻭﮦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﻧﮧﮨﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻏﯿﺐ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﺎ۔ﻭﮦ ﺭﺳﻮﻝ ﺹﮐﮯ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﮯ۔ﻧﮧﮨﯽ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﻉ ﻣﻌﯿﻦ ﻭﻣﻨﺼﻮﺏ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧﮬﮯ،ﻧﮧﻭﮦ ﻋﻠﻢ ﻏﯿﺐ ﺟﺎﻧﺘﮯﺗﮭﮯ،ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯﮐﻮﺋﯽ ﻭﻻﯾﺖ ﺗﺸﺮﯾﻌﯽ ﯾﺎﺗﮑﻮﯾﻨﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﯽ،ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻏﺎﻟﯿﻮﮞ (ﻏﻼٰۃ) ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﮨﮯ۔

10- ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہل بیت نظام شوری پر ایمان رکھتے تھے۔اور ان کو نظریہ امامت الہی کا علم نہیں تھا،نہ ہی انہوں نے دعوی کیا کہ وہ معصوم ہیں۔اور نہ ہی انہوں نے غیب دانی کا دعوی کیا۔وہ رسول ص کے احادیث کے روایت کرنے والے عالم تھے۔نہ ہی اہل بیت ع معین و منصوب من اللہ ےھے،نہ وہ علم غیب جانتے تھے،اور نہ ہی ان کیلے کوئی ولایت تشریعی یا تکوینی حاصل تھی،جیسا کہ بعض غالیوں(غلاٰۃ) کا دعوی ہے۔

11- ﯾﮧ ﻗﻮﻝ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﻉ ﮐﯽ ﺧﻼﻓﺖﮐﯿﻠﮯ ﻧﺺ ﺟﻠﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﺗﮭﺎ،ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ،ﯾﺎﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺩﻭﺳﺮﯼﺻﺪﯼ ﮨﺠﺮﯼ (199-100 هج)ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ،ﺍﺱﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﺎ ﺍﺱﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺱ (موضوع)ﮐﮯ ﮔﺮﺩ بحث و جدل بے فائدہ ھے( اس کا نہ ضرر ھے نہ کوئی نفع)۔اور نہ ھی اس بحث کی وجہ سے ھم زمانے کا کایہ پلٹ سکتے ھیں.ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻋﻠﯽ ﻉﮐﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﮯ ﮐﺴﯽﻧﺺ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﻭ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺁﭖ ﮐﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺑﺎﻟﻠﮧ،ﻭﺍﯾﻤﺎﻥﺑﺎﻟﺮﺳﺎﻟﺖ، ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡﮐﯿﻠﮯﺁﭖﮐﯽﻗﺮﺑﺎﻧﯽ،ﺍﻟﺘﺰﺍﻡﺣﻖ،ﻋﺪﻝﻭﻣﺴﺎﻭﺍﺕﺑﯿﻦﺍﻟﻤﺴﻠﻤﯿﻦ،ﺯﮨﺪﺩﻧﯿﺎ،ﺗﻮﺍﺿﻊ ،ﺷﻮﺭﯼ ﺍﻭﺭﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ یہ آپ کے فضائل کا ثبوت ھے۔ﺁﭖ ﻉ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﺭﺕﮐﺎ ﻣﻨﺼﺐ ﺳﻨﺒﮭﺎﻻ ﺟﺐﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﯽ۔

12- ﻋﻠﯽ ﻉ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪﺧﻼﻓﺖ ﻭ ﺍمامت ﮐﻮ ﺷﻮﺭﯼﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌﺍ۔ﺟﺲ ﻃﺮﺡﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﻧﮯ ﭼﮭﻮﮌﺍﺗﮭﺎ۔ﺁﭖ ﻉ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯﺣﺴﻦ ﻉ ﮐﻮ ﻭﻟﯽ ﻋﮭﺪﻣﻘﺮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺑﮯﺷﮏ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﮐﻮ ﺧﻮﺩﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺨﻮﺷﯽﺍﻣﺎﻡ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯿﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽﻃﺮﺡ ﺍﮨﻞ ﮐﻮﻓﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﯿﻦ ﻉ ﮐﻮ۔ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﯿﻦ ﻉ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻠﯿﻔﮧﻣﻌﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﭘﺮﻓﺮﺽ قرار دیا۔ﺍﻭﺭ ﺣﺴﯿﻦ ع ﮐﮯﺑﺎﻗﯽ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﻌﯿﻦ ﯾﺎﻭﺻﯿﺖ ﻧﮩﯿﮟ کی ﺍﻭﺭ ﻧﮧﮨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ ﺍﺱﮐﻮ ﻓﺮﺽ قرار دیا۔

13-ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼ ﺳﻦ260 ﮬﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻻﻭﻟﺪ(بغیر اولاد کے)ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ کسی کوﻭﺻﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﯽ۔ﻧﮧﮨﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺨﻔﯽﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﺍﮎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﯾﮧﺑﺎﺕ(لاولدھونا) ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟﻭﺍﺿﺢ ﺗﮭﯽ۔

14- ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﯽﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺎﺭﮬﻮﯾﮟ ﺍﻣﺎﻡﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺎﺋﺐ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺁﺝ1500 ﮐﮯ ﻟﮓ ﺑﮭﮓبتاﯾﺎﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﯾﺴﺎﮐﮩﻨﺎ ﻭﮨﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﮨﮯ۔ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽﺷﺮﻋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﺗﺎﺭﯾﺨﯽ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺭﻭﮬﻮﺍﮞﺍﻣﺎﻡکے وجود ﮐﻮ ﻓﺮﺿﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮﺑﻌﺾ ﺍﻣﺎﻣﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﮦ ﻧﮯ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﺎﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼ ﻻﻭﻟﺪ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺋﮯ

15- ﮨﻢ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ"ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ" ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥﻧﮩﯿﮟﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﺩﻧﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮨﮯﺟﺴﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﻔﺎﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞﮐﯿﻠﮯ ﻣﻌﯿﻦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ (ﮐﺴﯽ )ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮭﺪﯼ ﮐﮯ ﻇﮩﻮﺭﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻄﻌﯽﺩﻟﯿﻞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔۔

16-ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺫﯾﻞﻣﯿﮟ: ﮨﻢاﻣﺎﻡﻣﮭﺪﯼﮐﯿﻠﮯﮐﺴﯽﻧﯿﺎﺑﺖﺧﺎﺻﮧﻧﻮﺍﺏﺍﺭﺑﻌﮧ۔ﺳﻔﺮﺍﺀ ﺍﺭﺑﻌﮧ ) ﺍﻭﺭﻧﯿﺎﺑﺖ ﻋﺎﻣﮧ (ﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﯿﻠﮯﻧﯿﺎﺑﺖ ﮨﻮﻧﮯ) ﮐﺎبھیﯾﻘﯿﻦﻧﮩﯿﮟﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﺍﻣﺎﻡ ﻣﮭﺪﯼ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮﮐﺒﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻏﺎﺋﺐ ﺑﮭﯽﮨﻮﮔﯿﺎ! ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺱ کوﺍﯾﮏ ﻓﺮﺿﯽ ﻭ ﻇﻨﯽ ﺩﻋﻮﯼﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺟﺲ ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽﺷﺮﻋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ اور يہ دعوي دراصل ان اشکالات کو حل کرنے کی کوشش میں وجود میں آیا جب ان کو اپنی قیادت کی وفات کا سامنا کرنا پڑا.ﺍن ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﯾﮧﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺟﻮﺩ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﺭﮬﻮﺍﻥﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﯿﺒﺖ بنا۔

17- ﮬﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﺑﮭﯽﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮐﮧﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﯿﺴﮧﮐﮯ ﻣﺸﺎﺑﮧ "ﻧﻈﺎﻡ ﻣﺮﺟﻌﯿﺖ" ﮨﮯ،ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻠﻤﺎء ﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ(ﺩﯾﻨﯽ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﻣﯿﮟ )ﺭﺟﻮﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔ﺍﺳﯽﻟﺌﮯ ﮨﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﯿﻠﮯﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﻮ ﻭﺍﺟﺐﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﻓﻘﯿﮧ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﯽﺍﺧﺘﺼﺎﺭ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟﻭﺍﺟﺐ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺑﻠﮑﮧﮨﻢ ﺣﺮﻣﺖ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺱﺗﻘﻠﯿﺪ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﻮ بدعتﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟﺍﺗﺎﺭﯼ۔ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺗﻤﺎﻡ ﻗﺪﺭﺕﯾﺎ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯﻣﮑﻠﻔﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯﮨﯿﻦ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺻﻮﻝ ﻭﻓﺮﻭﻉ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟﺍﺟﺘﮩﺎﺩ ،ﻏﻮﺭ ﻭ ﻓﮑﺮ ﺍﻭﺭتحقیق ﮐﻮﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯﺗﮭﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺷﯿﺦﻃﻮﺳﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧﻣﺨﺘﻠﻒ ﺁﺭﺍﺀ ﮐﻮ ﺩﺭﺍﺳﺖﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﺻﺎﺋﺐ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﻮ ﺍختیاﺮﮐﺮﯾﮟ۔

18- جیسا ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻋﻮﺕﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺠﺘﮩﺪﯾﻦ ﮐﻮﮐﮧ ﻭﮦ ﻓﻘﮧ ﻭ ﺍﺻﻮﻝ ﻣﯿﮟﺍﭘﻨﮯ دﺭﺍﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻡﺍﻗﺘﺼﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ﺑﻠﮑﮧﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﻋﻮﺕﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﻘﺎﺋﺪﺍﺳﻼﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯﺩﺭﺍﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺼﻮﺻﺎﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻟﮩﯽ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﺎﺥ ﮨﮯﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ 12 واں امامﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩﮐﻮ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺱﻣﯿﮟﺑﮭﯽ ﻋﺪﻡ ﺍﻗﺘﺼﺎﺭ ﮐﻮﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ؔ
19- ھم علماء سے متعلق مراقبت،احتساب اور نقد کا نظریہ رکھتے ھیں.پس وہ جو فتوی دیتے ھیں.وہ کل کے کل صحیح اور ھمیشہ شریعت کے مطابق ھے؟ پس تحقیق اکثر علماء بھی شبھات اور اھواء کا شکار ھوتے ھیں .پس وہ اس چیز کو جسے اللہ نے حلال کیا اس کو حرام اور جس چیز کو حرام کیا اس کو حلال کرلیتے ھیں.(جیسا کہ ان کا قول کہ خمس واجب ھے اور معین کرنا نماز جمعہ کو کہ غیر واجب ھے۔).
   20-  ہم علماء کے فتاوی کو شرعی اور قانونی طور پر لازمی طور پر پابندی کو لازمی نہیں سمجھتے۔الا یہ کہ ان کا فتاوی ایک دستوری اجماع ایسے مجالس شوری جس کو امت نے منتخب کیا ہو اس میں اجماع کے ذریعے فتوی دیا ہو۔
21-ھم اصولی شیعہ مسلک کی قدر کرتے ھیں جس نے اجتھاد کا دروازہ کھولا اورتشیع کو توازن و اعتدال کی طرف لوٹایا. اور اخباری شیعوں کے بہت سے خرافات اور اساطیر کو ترک کیا.اور ھم فقھاء سے اصول و فروع اور رجال و حدیث میں مزید عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ھیں.اور غلاۃ مفوضہ جو اھل بیت ع کی طرف صفات ربوبیت کو منسوب کرتے ھیں اور ان سے متعلق غلو کرتے ھیں اور ان کیلے مقامات علیا کرتے ھیں اور بشر سے اوپر اور خدائی صفات کے قائل ھیں جیسے ولایت تکوینی تفویض اور خلق و رزق،ان کا بھی مکافحہ ھونا چاھیے.
  22-همارے اس دورمیں علماۓ شیعہ کی کوشش لائق تحسین ھے خصوصا اصولی شیعہ مسلک کی جنھوں نے دراست حدیث اور علم رجال کا کام کیا ھے اور الکافی میں موجود تمام احادیث میں کے 5 حصوں میں سے 4 حصہ کو ضعیف قرار دیا.ان کو ھم دعوت دیتے ھیں کہ جو احادیث باقی بچ گئے ھیں اور ان کو سابق علما نے درست یا مستند کہا ھے ان پر نظرثانی کریں.کیونکہ بعض غالی جو نے احادیث کے راوی کے روپ میں آئے اور ان کے روایات کو درست قرار دیا گیا اور وہ اپنے مشن میں کامیاب ھوئے.اسی وجہ سے ھمیں الکافی کی ھر 100 میں سے 99 احادیث پر شک ھوتا ھے اور اسی قسم کی (غالیوں کی)احادیث کی وجہ سے مسلمان مسلسل (فرقہ وارانہ) اختلافات کا شکار ھیں.
23-ھم حکومت رجال دین(تھیوکریسی) پر ایمان نھیں رکھتے اور نہ ھی ولایت فقیہ پر.جو کہ فقیہ کو مطلق اختیارات دیتا ھے اور اس کو قانون سے بالاتر مقام دیتا ھے اور اس کو تجاوز کرنے دستور میں ! ھم اگرچہ ولایت فقیہ کو اس نظریہ انتظار مھدی سے کی نسبت مثبت نظریہ سمجھتے ھیں کہ جس میں امامت الہی کی بنیاد،عصمت اور علوی حسینی ھونے کی شرط اتھارٹی ھے. جب کہ ولایت فقیہ ایمان،شوری کی بنیاد کو اتھارٹی سمجھتا ھے.ھمارا اعتقاد ھے کہ نظریہ ولایت فقیہ ایک حادثاتی نظریہ ھے جس کی کوئی شرعی دلیل موجود نھیں.اور محقق علما اس کو مانتے نہیں کیونکہ یہ حاکم کو دینی اسٹیٹس دیتا ھے اور اس کے گرد مقدس ھالہ بناتا ھے اور اس کو محاسبہ اور جانچ پڑتال سے استثنا دیتا ھے.اور نقد و تغییر سے بھی.اور اس کو ایک استبدادی ڈکٹیٹر بناتا ھے اور یہاںدیتے ھیں اس سے افضل نظریہ اور قیام کی کہ جس کی بنیاد کا محور شخصی صلاحیات اور عوام کی جانب سے(شوری) انتخاب ھو.

 24-ھم دیگر مذاھب اسلامی کیلے وسعت نظری رکھنے پر یقین رکھتے ھیں.اور ان کے اجتھادات کا بھی احترام کرتے ھیں.اور ھم عملی طور پر شیعہ سنی کو مشترکہ اجتھاد کی دعوت دیتے ھیںاور قرآن کی طرف رجوع کی.اور قرآن کو باقی تمام مصادر شریعت کا اول اور اعلی مصدر شریعت قرار دینے کی دعوت دیتے ھیں
25-ھم تمام شیعہ و سنی احادیث کے مصادر کا احترام کرتے ھیں.لیکن ھم ان مصادر احادیث میں سے جو ضعیف احادیث رسول ص کی طرف منسوب ھیں اور قرآن و عقل اور علم کے مخالف ھیں.ایسی احادیث کی تنقیح کا مطالبہ کرتے ھیں.
26- ھم شیعہ و سنی دینی مدارس اور حوزات علمیہ کے باھمی میل جول کے قائل ھیں.مکتب کے پروگرام،اساتذہ اور طلباء کیلے ایک ماحول اور حدود میں رھتے ھوئے آزادی رائے اور بحث و تقابل مسالک کیلے اقدامات کیے جایں.
  27- ہم وسعت نظر کے قائل ہیں دوسروں کے ثقافت سے متعلق، اور سب گروہوں کیلے ثقافتی وسائل و ذرائع کی فراہمی کی آزادی کے حق میں ہیں،اور دوسروں کے ثقافتی پراڈکٹس کو کنٹرول کرنے اور پابندی لگانے کے حق میں نہیں۔
  28-ھم وحدت عالم اسلامی پر ایمان رکھتے ھیں.ھم فرقہ کی تمیز(اس کی بنیاد پر تفریق) سے علحیدہ ھیں.اور ھم ھر ملک میں وحدت وطنی اور مختلف فرقوں کے درمیان سیاسی اشتراک پر عمل کے داعی ھیں جس کی بنیاد ملک،حریت،عدالت و مساوات ھو۔

 29- ھم یقین رکھتے ہیں کہ شدت پسندی کا حل دستوری موسسات کے قیام اور ڈیموکریٹک نظام اور پر امن اتھارٹی  کے استعمال کرنے  سے ممکنہے  اس طرح تنازعات جس کا نتیجہ تشدد ہو  اور انتشار کے طور پر ملتا ہے اس نظام کے تحت حل کرنے میں مدد ملے گی۔اور کسی فوجی طاقت و قوت کے زور کی ضرورت بھی اس صورت میں نہیں رہے گی(اگر اس طور پہ حل نکالا جائے تو)۔

 30- ہم دعوت دیتے ھیں کہ فرقوں کے درمیان بے فائدہ جدل و جنگ کو بند کیا جائے. اور دوسروں کے شعائر یا مقدسات پر حملہ کر کے ان کو اشتعال دلانے کے اعمال کو روکا جائے مشتعل  خصوصا صحابہ کرام،اھل بیت اطھار اور آیمہ مذاھب سے متعلق دوسروں  

31- ھم یہاں اسی مناسبت سے احیاء کرنا چاھتے ھیں "مؤتمر النجف الاشرف" جو تاریخ میں شوال 1156 ھجری بمطابق 1743 عیسوے میں ھوا.جس میں عرب،ترک فارس اور افغانستان کے شیعہ وسنی علماء شریک ھوئے.جس کی صدارت سنی شیخ عبداللہ السویدی،مفتی افغان ملا حمزہ القلنجانی!مفتی ایران ملا باشی علی اکبر اور مرجع کربلائی سید نصراللہ الحائری نے کی.جنھوں نے مشترکہ اتحاد پر مبنی شیعہ و سنی علماء نے فتوی صادر کیے.اور جس میں شیعہ نے سب صحابہ کو ترک کرنے،جب کہ اھل سنت نے شیعہ کو (مسلمان فرقہ کے طور پر)تسلیم کیا.اور اس میں یۂ اظھار کیا کہ تمام الزامات اور غلطیوں کو جو بعض فروعی مسائل میں تھے حریت و آزادی اختلاف قرار دیا اور شیعہ و سنی علماء نے ان موقع پر ایک دوسرے کے خون بہانے کو حرام قرار دیا.
.
32-ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ (اصحاب رسول ص پر)نقد ،سب ،لعنت کرنا اور تکفیر منافق و مرتد ھونے کا الزام یہ ایک فتنہ ھے جس فتنہ کبری میں مسلمان بہ گئے اور اس نے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کیا.اور ضروری ھے کہ اب اس فائل کے چیپٹر کو کلوز کرے، یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ ہم تاریخ کے ان زخموں کو تاقیامت کھولتے رہیں۔ 

33- - اور ضروری ھے کہ ماضی کے صفحات کو لپیٹا جائے.اور احداث و واقعات تاریخ میں گہرا غوطۂ زن ھونے کی بجائے اس کو صرف عبرت کے حصول کے طور پر پڑھا جائے.

34-ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہل تشیع کے پاس مثبت مبادی ہیں بہت سے جیسے کہ عدل،اسلام کا دفاع اور عمل فی سبیل اللہ اور ظالمین کے خلاف قیام۔اور یہی وہ امور ہیں جن کی حاجت آج کے مسلمانوں کو ہے۔ تاکہ اپنے آپ کو طاغوت سرکش ظالمین کے خلاف کھڑے کر سکیں اور غیر ملکی تسلط سے اپنی زمینوں کو چھڑا سکیں۔لیکن ہم جدل اور بحث جو نظرية “الإمامة الإلهية” اور امامت پر اللہ کی جانب سے نص پر ہے اس کو ہم اس کو ترک کرتے ہیں کیونکہ یہ بے فائدہ بحث ہے۔اور اس کا نقصان فائدہ سے زیادہ ہے۔اور اس کے نتائج ناپسندیدہ ہیں۔ اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے اور مسلمانوں میں سے بعض کا بعض سے دشمنی کو بڑھاتا ہے۔

35- - ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ زکوۃ دینا واجب ہے اور اس کے لئے عملی اقدامات کی دوعت دیتے ہیں ۔اور شیعہ و سنی کے تفریق ختم کرنے کی،دعوت دیتے ہیں۔ کیونکہ اللہ نے اہل دین کیلے معین نہیں کیا یہ حد شیعہ و سنی کی زکوۃ دتے ہوئے،،بلکہ یہ فرض کیا کہ صالح فقراء کو انسانوں میں دئے جائیں۔

36- - ھم خمس کے واجب ہونے کا اعتقاد نہین رکھتے،بلکہ اس خمس کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ(خمس دینا) یہ غنائم جنگ تک ہی محدود ہے اسی میں واقع ہوا ہے۔اور علی نے اپنی دور خلافت و حکومت میں اس (خمس دینے /لینے پہ عمل نہیں کیا) کا حکم نہین دیا ۔اور بلکہ اگر صحیح روایات شیعہ اور سابق علماء کے فتاوی اس بات کی تائید کرتے ہیں "عصر غیبت امام زمان" میں خمس دینے سے متعلق ۔ بے شک offcourse ہم اس کے متعلق ایمان نہیں رکھتے کہ خمس فقہاء یا ان کے وکلاء کو دی جائے۔کیونکہ ایسا کرنا ایک جدید رائے ہے جس کا پتہ سابق علمائے شیعہ جیسے المفيد والمرتضى والطوسي کو نہیں تھا۔بلکہ یہ لوگ اس خمس کے متعلق اپنے شبہات confusion کا اظہار کرتے تھے اور فتوی دیتے تھے کہ اس کو جمع کر دیا جائے یا اس کو زمین میں دفن کیا جائے امام زمانہ کے آنے تک۔، اور ہم علماء کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ علم کی تحصیل اور دعوت و ارشاد کے عمل میں آگے آئیں ،بجائے اس کہ کہ وہ مال جمع کرنے میں لگے رہیں اور اپنے آپ کو شبھات و اقاویل کے خطرے میں ڈالیں۔ 

37- ہم دعوت دیتے ہیں کہ فلاحی اداروں کیلے مالی امداد دی جائیں۔جس کا مقصد اجتماعی اور ثقافتی پراجکٹس اور اسکیموں کو کور کرنا ہو۔اور اسی میں سے یہ مساجد ،مدارس دینی اور علمائے دین کی دیکھ بال کے اقدامات بھی ہوں۔ہاں مگر اس کے حساب کتاب اور شفاف طریقے سے خرچ کیلے تفصیل اور آڈت کا نظام بھی ہو۔

38- - ھم نماز جمعہ کو عین واجب ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔اور یہ ہر اس شخص پر واجب ہے جس میں شرائط پائی جائیں۔ اور ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں علمائے شیعہ کے اس اقدام کو جو انقلاب اسلامی کے بعد اٹھایا ایران عراق لبنان اور دوسرے ممالک میں۔ہم سب لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ اس کے پڑھنے کو عام کریں اور انتظام و دقت کریں اس کو لازم کرنے کیلے۔ہم نماز جمعہ کو ایک ایسا موقع و مناسبت عظیم سمجھتے ہیں جو کہ تقوی،معرفت الہی کی طرف رغبت دیتا ہے اور جمعہ ایسا مناسبت نہیں کہ جس میں ظالموں کیلے دعا کی جائے اور ان کے غلط اعمال کو Justify کریں۔

39- ﮬﻢ ﺍﺫﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧﮐﻮ ﺟﺴﮯ "ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺛﺎﻟﺜﮧ"ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮨﮯ:
ﺍﺷﮭﺪ ﺍﻥ ﻋﻠﯿﺎ ﻭﻟﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ

ﮨﻢﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻼۃﻣﻔﻮﺿﮧ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻣﻦ ﻻ یحضرہﺍﻟﻔﻘﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺦ صدوقﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺷﮩﺎﺩﺕﺛﺎﻟﺜﮧ ،ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺪﻋﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟﺗﻔﺮﻗﮧ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﮯ۔

40- - ہم تقیہ کرنے کو درست نہیں سمجھتے جیسا کہجو ایک مسخ صورت میں ہم دیکھتے ہیں۔ ھم جیسا کہ اس قول کی جو امام جعفر سے منقول ہے اس سے قبول نہیں کرتے:۔
: “التقية ديني ودين آبائي، ولا دين لمن لا تقية له”
اس کو ہم آئمہ پہ منسب جھوٹی حدیث سمجھتے ہیں۔اس کو عقلی اور تاریخی مبرر حاصل نہیں۔پس تقیہ بھلا کیسے دین کا ایک جزو بن سکتا ہے؟؟اور آئمہ کب تقیہ کرتے تھے؟اور وہ کن سے ڈرتے تھے؟؟اور ہم یہاں سمجھتے ہیں کہ ایسی احادیث موضوع یا بناوٹی ہیں۔ یہ اس قسم کی جعلی احادیث غااۃ نے گھڑی ہیں تاکہ وہ اپنی جھوٹے اور باطل نظریات کو اہل بیت کے نام سے پھیلا سکین،وہ اہل بیت کہ جنہوں نے ان غلاۃ سے اعلانیہ برات کا اعلان کیا۔۔۔۔۔۔!
اور ہم دعوت دیتے ہیں کہ فکر اہل بیت اور تراث اہل بیہت کو پڑھیں۔ان کے زندگی کے ظاہر کا مطالعہ کرین اور ان کے افعال و اقوال سے متعلق کسی قسم کے باطنی معاکس کو قبول نہ کریں،اور ہمارے اس زمانے میں کہ جب آزادی مکمل طور پر حاصل ہے اور ہر انسان کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے۔ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ تقیہ کا عھد گزر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شیعہ کے پاس کوئی عیب والی چیز نہیں کہ وہ اس کو چھپائیں یا دوسروں سے ڈریں۔اور نہ ہی کوئی ایسی چیز مانع ہے کہ وہ اپنے آراء کا اظہار کر سکیں۔خصوصا جب طاقتور شیعہ حکومتیں بن گئی ہیں اور وہ ایک آزاد ڈیموکریٹک ملک میں رہ رہے ہوں۔اس لئے اب وہ اپنے آراء کو آزادی و بہادری سے اور سچائی(نہ کہ تقیہ) کے سہارے اظہار کر سکتے ہیں۔اور ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جو کسی معین فکر کا انکار کرے لازما وہ تقیہ کر رہا ہو۔پس ہر شیعہ ان قدیم کتب میں وارد ہر بات کو من و عن نہیں مانتا،اور یہ علماء ہیں کہ جنہوں نے بہت سارے اسی ایسی باتوں کا رد کیا ہے اور برات ظاہر کیا ہے جو کچھ قدیم کتب شیعہ میں آیا ہے۔

41- ﮬﻢ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﻥﺩﻋﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻏﻼۃﺍﻭﺭ ﻣﺘﻄﺮﻓﯿﻦ ﮐﮯ ﺟﻌﻞﮐﺮﺩﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻋﻠﻤﺎﺀﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻨﻘﯿﯿﺢ ﻭ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ع ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ "ﺯﯾﺎﺭﺍﺕ"ﺟﯿﺴﮯ ﺯﯾﺎﺭﺕﺟﺎﻣﻌﮧ،ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻋﺎﺷﻮﺭﺍ،ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺴﺎﺀ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﺟﻮ ﮐﮧ اصحاب رسول ص کی ﻣﻮﺍﻗﻒ ﺳﻠﺒﯽ پر مشتمل ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺭﻭﺡ ﺍﻭﺭﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﮯﻣﻨﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ۔ﺟﻦ ﮐﻮ ﻏﻼۃ ﻧﮯ ﮔﮭﮍ ﮐﺮ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﻧﺴﺒﺖﺩﯼ ﮨﮯ ﺁﺋﻤﮧ ﺳﮯ۔

42-ﮬﻢ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﺁﺋﻤﮧﺟﺲ ﭘﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ مراسمﺍﻭﺭﻋﺎﺩﺍﺕﺩﺧﯿﻠﮧﮐﻮﮐﮭﮍﺍﮐﯿﺎﮔﯿﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥﻧﮩﯿﮟ ﻻﺗﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧﺯﯾﺎﺭﺕ ﻗﺒﻮﺭﺁﺋﻤﮧ،ﮔﺮﯾﺎﺍﻭﺭ ﺑﮑﺎﺀ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ عﭘﺮ، ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻨﮧ ﺯﻧﯽ ﮐﺮﻧﺎ۔ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮﺻﺎﺩﻕ ع ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:

”: ﺃﻧﻬﻢ ﻣﻮﻗﻮﻓﻮﻥﻭﻣﺤﺎﺳﺒﻮﻥ ﻭﻣﺴﺌﻮﻟﻮﻥ"

43-ﮬﻢ ﺁﺋﻤﮧ ﺳﮯﺍﺳﺘﻐﺎﺛﮧ،ﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﻧﺎ،ﯾﺎﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯ ﻧﺬﺭ ﻭ ﻧﯿﺎﺯ ﺍﻥﺳﺐ ﮐﻮ ﺷﺮﮎ سمجھتے ﮨﯿﮟﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ۔ﺍﻭﺭﺗﻤﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺎﻡ ﺟﺎﮨﻞ ﻭﮦ ﺳﺒﺎﻁ ﻟﻮﮒ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺘﮯﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻡ شیعہ ﺯﯾﺎﺭﺕﻗﺒﻮﺭ ﺁﺋﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻋﺒﺮﺕ ﺣﺎﺻﻞﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯﺑﺨﺸﺶ ﻭ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮﺭﺍﮦ ﺧﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﻨﮯﮐﺎ ﻋﺰﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯﮨﯿﮟ

44-ہم اپنے بھائیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مراسم عاشورا میں حد سے زیادہ بڑھنے اور مراسم مبتدعہ سے بچیں۔جو کہ تشیع کا چہرہ دنیا کے سامنے مسخ کرتا ہے اور جس پہ عمل کرنے اللہ نے کوئی دلیل نازل نہین کی۔

45-ہم ان غلاۃ سے شدت سے بے زار ہیں جو اصحاب کساء یا پنجتن کے متعلق یہ سمجھتے ہیںکہ اس کائنات کو اللہ نے خلق کیا ان ذوات کیلے، اور اس نےمخلوق کو انکے لئے خلق کیا تاکہ وہ ان پر رحم کرے اور ان کو آزمائے-

46-ہم دعوت دیتے ہیں عدم تضحیم کی باہمی اختلافات جزئی کی جو کچھ تاریخ میں ہوا صحابہ کے بیچ میں جیسے جیسا کہ حضرت فاطمہ اور ابوبکر کے درمیان فدک کا واقعہ پیش آیا۔جسے ابوبکر نے عوام کا مال سمجھ کر واپس لیا جب کہ فاطمہ زہراء کہتی تھی کہ میرے والد نے مجھے دیا ہے۔تو یہ جزئی شخصی اختلافات ہیں اور ہم ان اختلافات کو حل اور دور کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

47- ہم جیسا کہ ہم دعوت دیتے ہیں اپنے بھاہیوں کو کہ وہ قصہ ہجوم بیت فاطمہ کو ترک کریں،اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت علی ع سے زبردستی بیعت لینے کیلے اور آپ کو ابوبکر کی بیعت پہ مجبور کرنے کیلے حضرت عمر نے حضرت فاطمہ ع کے گھر کو جلا دیا یا دھمکی دی۔یا آپ نے آگ لگائی تو دروازہ گر کرفاطمہ زہراء کچل دیا جس سے جنین میں موجود محسن کی سقط ہوئی۔اور فاطمۃ الزھرائ اسی سبب فوت ہو گئیں ،اس(فرضی) واقعہ کو ھر سال مرچ مسالہ ڈال کر لوگوں کو مشتعل کرنا،اور اقامہ مجالس عزاء اور سینہ کوبی اور اس کے ساتھ لعنت اور سب کرنا۔اور لوگوں کے جذبات کو ابھارنا جب کہ تاریخ سے یہ واقعہ ثابت ہی نہیں۔اور ایسا واقعہ کے ہونے کو عقل تسلیم نہیں کرتا۔اور ایسا کہنا کہ یہ واقعہ ہوا تو حضرت عمر سے پہلے خود علی ع کی شان میں اس قبیل کے (فرضی)واقعہ دراصل عمر سے زیادہ علی کی برائی ظاہر کرتا ہے۔

48-"ﮨﻢ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ کہ ﺍﻟﻠﮧ کے گھر یعنی ﻣﺴﺎﺟﺪ کو فرقوں کے ادارے کے طور پر ( کہ جس میں فرقہ کا رنگ نمایاں ھو) نہ چلایا جائے،ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ ﮐﮭﻮﻻ ﺟﺎﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ھم ﯾﮧ دعوت دیتے ھیں کہ شیعہ ﻭ سنی امام ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ مشترکہ نماز پڑھی جائے۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ کسی ﺍﺳﺘﺜﻨﺎﺀ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﻨﮓ ﻧﻈﺮ ﻓﺘﺎؤوں کا ﺳﺪ ﺑﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ مسلک یاﻓﺮﻗﮧ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔"

49- ہم دعوت دیتے ہیں تفرقہ اور secterian کو ختم کرنے کی ،مختلف فرقوںکے بیچ ازدواج(شادی) کے ذریعے۔اور ان فتاوں کے سد باب کی جو فرقوں کے درمیان ازدواج(شادی) حرام کہتے ہیں ان کے سد باب کی۔

50-اسی طرح ہم اپنے تمام برادران اہل سنت اور دیگر اسلامی فرقوں کو دعوت دیتے ہین کہ وہ وسعت نظری کو فروغ دیں اپنے شیعہ بھائیوں کے متعلق۔اور ان میں سے اکثر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔اور ان میں سے معتدل اور غلات کے درمیان فرق کرنا سیکھیں۔اور ان پر سابقین(پہلے زمانے کے) یا گزشتہ اور شاذ اقوال کی وجہ سے فتوی لگانے سے گریز کریں۔اور ان اقوال کے جدید دور میں وقوع ہونے پر نظر ثانی کرین۔اور ملاحظہ کریں فکری اور سیاسی تطورات کو جو کہ ان کے صفوں میں حاصل و تحصل ہوا۔اور اس کی تائید کہ انہوں نے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں ۔اور وہ بڑھ گئے ہیں اس راستے میں کہ وہ اپنے ممالک کو طاغوت اور سرکشوں اور استعمار سے آزاد کرنے میں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين،

اللہ سے ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے دین کی خدمت کی توفیق دے
اور مسلمانوں کو متحد کرے اور ان کو سربلندی عطا فرمائے طاغوت کے پنجوں سے آزادی دے کر۔. إنه سميع مجيب.

أحمد الكاتب

1 محرم الحرام 1430 ہجری بمطابق 29/12/2008

ترجمہ و ترتیب:بی ایم این بلتستانی

آیت الله برقعی روضه خوانی کو حرام سمجھتے تھے



"آیت اللہ برقعی ایک مرتبہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں آقای فلسفی سے ملاقات ہوئی،چنانچہ آقای فلسفی نے برقعی کو گاڑی میں بٹھایا،گفتگو کے دوران آقای فلسفی نے برقعی سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو روضہ خوانی حرام ہے؟

برقعی نے کہا:

میں یقینا کہتا ہوں کہ روضہ خوانی حرام ہے،اس کیلے امداد اور پیسے دینا حرام ہے ۔
آقای فلسفی:
کس لئے حرام ہے؟
برقعی:
میں نے کہا کہ روضہ خوانی میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سب قرآن کے خلاف ہیں اور حقیقت میں یہ پیغمبر و آئمہ ع سے دشمنی کرنا ہے۔

ﺁﻗﺎﻱ ﻓﻠﺴﻔﻲ : کیا میرے لئے بھی! اور پوچھا کہ کیا ان کے منبر بھی حرام ہیں؟
برقعی:یقینا حرام ہے
فلسفی: کس لئے

میں نے ان کو سمجھانے کیلے کہا کہ آقای فلسفی کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک دن عاشورائ کے ایام میں آپ بازار میں منبر پر تھے؟؟

کہا:ہاں بے شک تھا

برقعی: اسی روز میں بازار چلا گیا تھا جب میں نے آپ کی آواز سنی تو میں نے پہچان لیا اور آپ کی گفتگو سننے کیلے کھڑا ہو گیا۔
اور میں نے سنا آپ کہ رہے تھے امام کو ماں کی پیٹ میں غیب کا علم ہوتا ہے ہر چیز جانتا ہے؟

فلسفی: بے شک ایسا ہماری احادیث میں آیا ہے،فلسفی کا مقصد وہ اھادیث جو ﻋﻠﻢ ﺍﻣﺎﻡﻗﺒﻞ ﺍﺯ ﺗﻮﻟﺪ ہے وہی تھا کہ آئمہ نور کے ستونون سے ہر چیز دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

میں نے کہا اولا یہ بات قرآن سے متصادم ہے جہاں فرمایا:

»ﻭﺍﻟﻠﻪﺃﺧﺮﺟﻜﻢ ﻣﻦ ﺑﻄﻮﻥﺃﻣﻬﺎﺗﻜﻢ ﻻ ﺗﻌﻠﻤﻮﻥ ﺷﻴﺌﺎ]21 [ = ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﺷﻤﺎ ﺭﺍ ﺩﺭﺣﺎﻟﻲ ﻛﻪ ﻫﻴﭻ ﭼﻴﺰﻧﻤﻲﺩﺍﻧﺴﺘﻴﺪ، ﺍﺯ ﺷﻜﻢﻣﺎﺩﺭﺍﻧﺘﺎﻥ ﺧﺎﺭﺝ ﺳﺎﺧﺖ «.

ﺛﺎﻧﻴﺎ اسی منبر پہ آُپ نے  ﺻﺤﺮﺍﻱﻛﺮﺑﻼ سے متعلق بتایا کہ جس وقت ﻛﻪ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻴﻦ)ﻉ   ﻛﻮﻓﻪ کی طرف ایک راستہ سے آنا چاہا تو ، ﺣﺮ ان کی راہ میں پہنچا اور  امام کو کوفہ پہنچنے سے روکنے لگے۔ امام نے اس صورتحال کو دیکھ کر دوسرا رستہ اختیار کر لیا جہاں اس راستہ کو چھوڑ کر جہان حر مانع ہوا۔یہان تک کہ ایک جگہ پہنچا جہان امام کے گھورے نے قدم اٹھانا چھوڑ دیا۔امام نے گھورے کو مارا اور بہت کوشش کی لیکن گھورا آگے نہیں برھا،اور حرکت نہیں کی۔امام حیران ہوا کہ آخر یہ گھوڑا آگے حرکت کیوں نہیں کرتا امام کو ایک عربی وہن ملا تو اس کو آواز دی اور اس سے پوچھا :اس زمین کا  ﻧﺎﻡکیا ہے؟ ﻋﺮﺏ  نے ﺟﻮﺍﺏ دیاﻏﺎﺿﺮﻳﻪ )ﻗﺎﺫﺭﻳﻪ (، ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﻴﻦ )ﻉ نے  ( ﺳﺆﺍﻝ کیا:ﺩﻳﮕﺮ کیا  نام ہےﺍ؟: ﺷﺎﻃﻲﺀﺍﻟﻔﺮﺍﺕ، ﺍﻣﺎﻡ  نے پوچھا :ﺩﻳﮕﺮ ﭼﻪ ﺍﺳﻤﻲﺩﺍﺭﺩ؟ﮔﻔﺖ: ﻧﻴﻨﻮﺍ، ﺍﻣﺎﻡ ﭘﺮﺳﻴﺪ:ﺩﻳﮕﺮ ﭼﻪ ﺍﺳﻤﻲﺩﺍﺭﺩ؟ﮔﻔﺖ: ﻛﺮﺑﻼ، ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻴﻦ)ﻉ ( نے فرمایا: ہاں میں نے اپنے نانا سے سنا ہے کہ فرمایا:
 تمہاری خوابگاہ کربلا ہے۔

اس کے بعد میں نے فلسفی سے پوچھا:
آقای فلسفی یہ ایک امام جن کے بارے میں آپ منبر پر کہ رہے تھے کہ ہر چیز کو جانتا ہے مان کی پیٹ سے ہی،اور قرآن پڑھتا ہے(بغیر معلم کے)،کیسے ایسا ہو گیا کہ امام سے پہلے اس کے گھوڑے کو معلوم ہوا کہ یہ سر زمین کونسی ہے؟اور امام کو بعد میں؟
یہاں تک کہ امام کو ایک عربی سے پوچھنا پرا کہ یہ کونسی جگہ ہے؟

  ﺟﻨﺎﺏ ﻓﻠﺴﻔﻲ  یہ کیسا امام آپ نے گھڑہ لیا ہے ﻛﻪ ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﻪ اس سے قبل اس کا گھورا مطلع ہوتا ہے؟
کیا یہی حب آئمہ ہے؟

کیا یہی معارف اسلام ہے؟ کیوں آپ احادیث پہ غور و تدبر نہیں کرتے ؟؟"

(سوانح ایام آیت اللہ برقعی قمی)

 یقینا یہ آقای فلسفی ایک بہترین واعط تھا،اور ان جیسا کوئی اہل منبر نہیں تھا جو اپنی بات کو اچھی طرھ پہنچائے۔

تکفیری گروه کون? استاد سید علی شرف الدین موسوی کا موقف

تکفیری گروہ

آپ(آغا جواد) "اور دیگر عمائدین کا تکرار اور اصرار ہے ہمارا کسی فرقے سے کوئی اختلاف نہین ،ہمارا اختلاف صرف تکفیری گروہ سے ہے۔یہ گروہ سب کو کافر کہتے ہیں ۔یہان پر آپ اور دیگر عمائدین سے سوال ہے اس وقت اس ملک میں کون تکفیری ہے اور کون سا فرقہ اس تکفیری گروہ سے بچا ہوا ہے۔سب سے پہلے جس نے دوسرون کو کافر کہنے کا فتوی دیا ہے،وہ بریلوی ہیں اس ھوالے سے آپ اھمد رضا خان صاھب کے فتویٰ دیکھ سکتے ہیں جب کہ ان سے آپ کا اتحاد ہے۔
   دوسرے نمبر پر آپ ہیں آپ نے امامت کو اصول دین مین شامل کیا،پھر اس کے منکر کو کافر کہتے ہین اور بحث و گفتگو کرنے والے کو منافق کہتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر وہابی آتے ہیں جو اپنے علاوہ سب کو کافر کہتے ہیں۔سلفی تو ہر حدیث میں ڈنڈا رکھتے ہیں جو اس کو نہیں مانتا،اسے کافر کہتے ہیں۔

آپ جن کو کافر نہیں کہتے اور جن سے اتحاد کرنا چاہتے ہیں وہ اس ملک کے سیکولر اور الحادی فکر رکھنے والے ہیں۔آپ کہتے ہیں شیعہ اور بریلوی ایک ہیں اور آپس میں ان کا اتحاد بھی ہے۔یہ بات بھی غلط ہے کیوں کہ آپ کے پاس کسی بریلوی سے اتحاد نہیں بلکہ آپ کے اتحادی قادری،بی بی اور تحریک انصاف ہیں جو سب سیکولر ہیں،جن کے پاس کوئی مذہب نہیں اور وہ اتحاد کی بات کرتے ہیں۔
    اگر آپ کسی کو قرآن و سنت نبی کی دعوت دیں تو آپ کو کوئی بھی کافر نہیں کہے گا۔لیکن آپ کو قرآن و سنت پیغمبر کی دعوت سے چڑ ہے ان سے دور بھاگتے ہین ۔جب بھی قرآن و سنت نبی کی بات ہوتی ہے تو آپ اور آپ کے علماء چیخ اٹھتے ہیں کہتے ہیں قرآن کو سب سے پہلے عمر نے اٹھایا تھا،قرآن تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آسکتا ہے، اور سنت کی بات پر بھی آپ چڑتے ہیں۔حقیقت میں اس وقت کوئی بھی فرقہ ایک دوسرے کو کافر گرداننے سے محفوظ نہیں۔سب قرآن و سنت کو چھور کر اپنا مصدر جعفر صادق ابو حنیفہ اور امام مالک و حنبل وغیرہ کو بنائے ہوئے ہیں۔حالانکہ قرآن و سنت میں ان کے قول کے حجت ہونے کا کوئی حکم نہین ہے۔اگر آپ سب قرآن و سنت کو اپنا مصدر قرار دے دیں تو یہ تکفیر خود بخود ختم ہو جائے گی۔" 

(دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی،علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی)

خلفائے راشدین کا سنهرا دور آیت الله اسد الله موسوی کی نگاه میں

اسد الله موسوی خرقانی

آیت اللہ آغاسيد اسداللہ میرسلامی موسوی معروف بہ مجتھد خارقانی اپنی کتاب "محوالموھوم 
وصحوالمعلوم(جس کو آیت اللہ طالقانی نے بھی تصحیح کے بعد شائع کیا) " صفحہ 37 پر فرماتے ھیں:

"چاروں خلفائے راشدین رسول ص کی وفات سے لے کر شھادت علی ع کے عرصہ تک (ان کی خلافت) "اولی الامر" کے مصداق تہے.کیونکہ اس عرصہ حکومت میں احکام قرآن نافذ کیے گئے.اور بیت المال کو برابر تقسیم کیا جاتا.اور خلیفہ وقت ملک کے ایک عام فقیر کی طرح اپناحصہ اس میں سے لےلیتا.اور خلیفہ وقت کا گھر سونے چاندی کی محلوں اور اسراف پر مبنی تزین وآرائش کا حامل نہیں تھا. بلکہ خلیفہ کا گھر بھی رسول ص اور اھل بیت ع کے گھروں کی مانند ھوتا تھا.بلکہ تمام مسلمانوں کے گھروں سے چندان مختلف نھیں تھا خلیفہ کا گھر.اور اللہ کے حدود کو بغیر کسی مداھنت اور مھادنت کے نافذ کیا جاتا.اور خلیفہ اور ان کے عزیز و اقارب پر ایک عام فرد مسلم کی طرح حدود کا اطلاق و نفاذ کیا جاتا."

 آیت اللہ سید اسداللہ موسوی بن سید زین العابدین الموسوی(سن پیدائش ذوالحجۃ 1254 ھجری/ 1833).