Sunday, 18 October 2015

علم یا سیاه جھنڈا اور آغا سید علامه شرف الدین موسوی کا نظریه


(اصلاح شیعت پرآغا صاحب کی لکھی گئی سب سے پہلی کتاب سے اقتباس)



سیاہ جھنڈا/علم

"شیعان حیدر  کی دنیا  و آخرت کی پہچان ہے،دنیا میں دیگر قوموں کے سر خرو ہونے اور قبر میں منکر و نکیر کیلے تعارف ہے۔حضرت امام حسین ع کے علمدار حضرت عباس سے منسوب یہ سیاہ جھنڈا ہر امام بارگاہ پر نصب کیا جاتا ہے۔اسی طرح بہت سے شیعہ گھروں پر بھی یہ سیاہ جھنڈا لہرا رہا ہے۔اسے عزادار علم کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں جھنڈے کو علم کہنا صرف یہاں کی وضع کردہ اصطلاح ہے جب کہ پیغمبر اکرم ص،امیرالمومنین ع،امام حسین ع نے جب جھنڈے کا ذکر کیا تو اسے "لوا" اور "رایہ" کہا ہے۔شاید بعض علماء ،ماہرین صرف و نحو و اصول کہیں کہ اس میں کیا حرج ہے مجاز جائز ہے ہم بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں،کیونکہ جہاں حلال و حرام میں تغیر و تبدیل جائز ہے ہو تو الفاظ کی تبدیلی میں کوئی حرج نہیں رہتا،بعض اس علم کو  عقائد میں شمار کرتے ہیں چنانچہ دینی مدارس سے بھگوڑے یا کچھ عرصہ پڑھنے والوں کو عمامہ و عبا پہنا کر کہلوایا جاتا ہے یہ جھنڈا ہمارا مذہبی نشان ہے۔ اسی طرح شیعہ دینیات کے ترتیب دینے والوں نے منکر و نکیر کے سوالات کے  جواب میں لکھنا شروع کیا ہے کہ یہ جھنڈا ہمارا  نشان ہے۔

پہلے زمانے میں مجلس عزائے امام حسین ع میں عزاداروں کو کربلا میں حضرت ابوالفضل عباس ع کی شہادت کی یاد دلانے کے حوالے سے پرچم کا ذکر ہوتا تھا رفتہ رفتہ جب مجلس عزا نے ایک نئی شکل و صورت اختیار کی تو اس علم کو جلوس میں لایا گیا۔سابق زمانے میں اس کا رنگ سیاہ ہوتا تھا لیکن چند سالوں سے اس کے رنگ شکل ،قد و قامت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔کیونکہ جتنا مفاد پرستوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اسی تناسب سے اس کی شکل و صورت  اور تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔

جھنڈے کا مقصد لشکر کو اپنے گرد جمع کرنا تھا اسی طرح جلوس میں بھی لوگوں کو جمع کرنے کی خاطر ہوتا تھا۔لیکن جب لوگون نے اس جھنڈے کی تھیلی میں لوگوں سے نذروات لینا شروع کیں تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔رفتہ رفتہ یہ جلوسوں سے واپسی کے بعد ہمیشہ کیلے امام بارگاہوں میں نصب ہونا شروع ہوا۔اور اس کے نیچے ایک صندوق رکھا جانے لگا۔تاکہ عقیدت مند اس میں اپنی نذر و نیاز ڈالیں۔اب علم کربلا کی یاد دہانی کے بجائے صندوق نذر و نیاز کی نشانی بن گیا ہے۔پریشان حال لوگ اپنے مسائل و پریشانیوں کی خلاصی کیلے اس میں پیسہ ڈال کر اپنی پریشانی کے دور ہونے کے معتقد ہوئے ہیں۔کیونکہ ایک گروہ نے اس علم سے حاجتیں،نیازیں پورا ہونے کا پروپیگنڈا شروع کیا اور وقتا فوقتا ساحرانہ طور پر بناوٹی معجزات کا بھی چرچا کیا۔ دور  جاہلیت میں بتوں کی انتظامیہ بتون کے پیچھے کسی آدمی کو بٹھاتی اور وہ آنے والون سے اپنے نذر و نیاز کی بھیل مانگتا۔ جس کے نتیجہ میں بت پرست خواتین یہاں زیورات چھوڑتے اونٹ ذبح کرتے۔شاید انہی کی پیروی کرتے ہوئے آج کل یہ کام ریکارڈنگ اور مختلف طور طریقوں سے انجام پا رہا ہے۔

بعض علماء نے تو ہاتھ ہلا کر کہا،اس جھنڈے کو معمولی نہ سمجھنا،اسے ایک کپڑے اور لکڑی کا ڈنڈا نہ سمجھنا۔مجھے بھی ان سے اتفاق ہے یہ جھنڈا کوئی معمولی جھنڈا نہیں،کیونکہ اسے کوئی بھی چرسی ملنگ،فٹ پاتھ یا سڑک کے دوراہے پر لگائے تو یہ پوری قوم کی عزت و وقر کا مسئلہ بن جاتا ہے۔اس جھنڈے  اور گھوڑے کی اتنی اہمیت ہے کہ اسے اب تو بین الاقوامی استعمار نے بھی تسلیم کیا ہے۔وہ اس فیصلے پر پہنچے ہیں اس قوم کو ایک جھنڈا اور گھوڑا دے کر ان کے ملک بلکہ مذہب کو بھی خریدا جا سکتا ہے۔

 اس جھنڈے کا پس منظر کچھ یون ہے:

میدان کربلا میں دیگر جھنڈون کی مانند لشکر حسین ع کا بھی ایک پرچم تھا۔چنانچہ کتب و مقاتل میں بھی آیا ہے کہ امام حسین ع نے اپنے لشکر کے دائیں طرف کے لوگوں کیلے ایک  پرچم مخصوص کیا  اور یہ پرچم زہیر ابن قیس کو عنایت کیا اسی طرح بائیں جانب کا پرچم جناب  حبیب ابن مظاہر کو عنایت کیا اور ان پرچمون کے علاوہ ایک اور پرچم لشکر کے مرکز میں تھا جسے قطب و محور سمجھا جاتا تھا۔ اسے اپنے بھائی حضرت ابوالفضل عباس کو دیا۔ تمام کتب مقاتل میں آیا ہے "واعطی رایۃ الی الاخا العباس" جو اس پرچم کو اٹھانے کی تمام تر امتیاز و صلاحیت رکھتے تھے۔ اس پرچم پر زمان و مکان کے گزرنے کے بعد اثر اندا ہونے والے امتیازات  پر بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے

1- اس پرچم کے  رنگ اور قد و قامت کے زاویہ سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ پرچم اپنی اصلی امتیازات سے دور نہ ہو۔
2-حضرت امام حسین ع اور حضرت ابوالفضل عباس ع کی شہادت کے بعد اس پرچم کی حیثیت اور تاریخ کیا  رہی ہے۔
3- اس پرچم کو دوبارہ بلند کرنے اور اس پرچم کو اٹھانے والے افراد کی خصوصیات و شرائط کیا ہیں
4- اس پرچم کو تبرک کے طور پر مس کرنے اور اس سے اپنی حاجت کی برآوری کیلے رجوع کرنے کا عمل
5- اس پرچم کو نصب کرنا زمان و مکان کے حوالے سے اور اس کے بارے میں آئمہ طاہرین ع اور فقہاء و مجتہدین کی ہدایت و رہنمائی کیا ہے

پہلا نکتہ:
 تاریخ اسلام سے پہلے اور بعد میں ہونے والی جنگوں میں ملتا ہے پرچم سیاہ ہمیشہ دور جاہلیت میں نامناسب اور نفرت انگیز جگہوں پر نصب ہوتا رہا ہے۔اور اسی طرح اسلام کے مقابل جب مشرکین جنگ کیلے اسلام کے خلاف نکلتے تو ان کا پرچم سیاہ ہوتا تھا۔ پیغمبر اکرم ص کے بعد جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کے پرچم کا رنگ سیاہ تھا۔اسی لئے اس پرچم کو دیکھ کر صحابی امیرالمومنین ع ،عمار یاسر نے فرمایا  میں اس سیاہ پرچم کے خلاف لڑتا رہا ہوں اور اب بھی لڑ رہا ہوں۔جب بنی امیہ کے خلاف بنی عباس نے تحریک چلائی تو ان کیلے تحریک  چلانے والے ابومسلم خراسانی کے لشکر کے پرچم کا رنگ  بھی سیاہ تھا۔چنانچہ امام جعفر صادق ع نے عبداللہ بن حسنسے فرمایا کیا آپ نے ابوسلمی خلال سے کہا تھا کہ سیاہ پرچم بلند کریں،لہذا واضح ہوا کہ سیاہ پرچم کبھی بھی شیعوں کی نشانی نہیں رہا۔

دوسرا بکتہ:
یہ پرچم جو آج کل پرچم عباس ع کے نام سے معروف ہے یہ نسبت حقیقت سے عاری ہے کیونکہ یہ پرچم حسین ع کا ہے۔چنانچہ کتب مقاتل میں آیا ہے کہ امام حسین ع نے اپنا پرچم حضرت ابوالفضل عباس ع کو دیا جس طرح  جنگ خیبر میں پیغمبر اکرم ص نے اپنا پرچم علی ع کو دیا۔ جنگون میں پرچم ہمیشہ قائد جبگ کا ہوتا ہے۔اور کربلا میں قائد میدان امام حسین ع تھے۔ بلکہ درحقیقت یہ پرچم اسلام ہے جسے امام حسین ع نے اٹھایا تھا اور اس کے برعکس جو پرچم عمر سعد نے اٹھایا وہ پرچم کفر و مشرکین تھا لہذا اس پرچم کو حضرت عباس ع سے منسوب کرنا درحقیقت اصل صاحب پرچم کو دو درجہ نیچے لانا ہے ایک درجہ اسلام اور دوسرا درجہ امام وقت۔

تیسرا نکتہ:
یہ پرچم اپنی لمبائی کے لحاظ سے اس وقت ایک مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکا ہے جو کسی تفسیر کا محتاج نہیں۔جنگوں میں ایک صاحب شجاعت پرچم کو اٹھاتا تھا تاکہ لوگ اس کے گرد رہیں اور جنگ کے بعد اس کی طرف لوتیں لیکن موجودہ پرچم اتنا بلند اور وزنی ہے کہ کئی افراد اسے اٹھاتے  ہیں اور بعض جگہون پر تو اسے لٹا کر لے جایا جاتا ہے یہ مضحکہ خیز صورتھال دین و مذہب کے نگہبان علماء کی عدم توجھی کی بنا پر پیدا ہوئی ہے کیونکہ وہ اپنے مفاد کی خاطر اس کے خلاف آواز  نہیں اٹھاتے یا خاموشی اپنائے ہوئے ہیں۔

چوتھا نکتہ:
پرچم ہمیشہ میدان جنگ میں مرکز قوت  و قدرت کیلے اٹھایا جاتا ہے تاکہ منتشر توانائیاں ایک جگہ جمع ہو سکیں ،کربلا میں شہادت امام حسین ع اور اسارت اہل بیت ع کے بعد یہ پرچم بلند نہیں ہوا بلکہ اہل بیت ع کے آگے جو پرچم بلند تھا ،وہ پرچم کفر و باطل تھا،اہل بیت ع نے مدینہ واپسی تک کوئی پرچم بلند نہیں کیا۔ حتی کہ اس کے بعد بھی کسی امام نے اس پرچم کو اپنے گھر پر نہیں لگایا،اگر کسی کو کوئی تاریخی سند ملے تو ان سے گزارش ہے کہ اسے صفحہ قرطاس پر لائے،صرف یہ کہنا  کافی نہیں کہ ہر قوم کا ایک پرچم ہوتا ہے۔کیونکہ یہ جملہ بھی واقعیت سے مطابقت نہیں رکھتا،کیونکہ پنجابی ،سندھی،بلوچی یا عرب وغیرہ کا پرچم نہیں ہے پرچم صرف حکومتوں اور سیاسی احزاب کا ہی ہوتا ہے اگر یہ پرچم شیعون کی ہوتا تو اس ملک میں شیعہ تنظیمیں اپنا الگ الگ پرچم نہ بناتیں لہذا پرچم کیلے بہترین  و موزوں جگہ میدان جنگ ہی ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوا پرچم ایک مرکزی قوت ہے اور جب صاحب پرچم اسیر ہوجائے تو پرچم اٹھانے کی صلاھیت نہیں رکھتا میدان کربلا میں شہادت امام حسین ع اور اسیری اہل بیت ع کے بعد سید الساجدین ع نے کوئی پرچم بلند نہیں کیا۔اسی طرح جب کسی ملک میں کوئی عظیم شخصیت وفات پاتی ہے یا کسی بڑی آفت یا نقصان کا سامنا ہو تو  وہ اپنا پرچم چند دنوں کیلے سرنگوں کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں  اس کے برعکس شیعہ  قوم جتنے مسائل و مصیبتون میں گرفتار ہوتی ہے اتنا ہی اس پرچم کو بلند کیا جاتا ہے۔جتنی اسلام پر مصیبت پڑتی ہے اتنا ہی اس کو بلند کیا جاتا ہے گویا اس پرچم کا اسلام سے کوئی رشتہ ہی نہیں۔اسی لئے دین و مذہب کا مذاق اڑانے والی سیاسی پارٹیوں کے امیدوار بھی ووٹ حاصل کرنے کی خاطر اس پرچم کو اپنے گھر کی چھت پر بلند کرتے ہیں۔

پانچوان نکتہ:
یہ پرچم رمز وحدت امت ہے یعنی تمام افراد اس پرچم کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اس پرچم کے حامل شخصیات کی یہ منطق تھی کہ تمام امت امات واحدہ ہے لہذا انہوں نے بغیر کسی تفرقہ اور امتیازات سے ہٹ کر اس پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دی،ائمہ طاہرین نے ہمیشہ شیعون کو یہ حکم دیا وہ خود کو اسلام میں حل کر کے زندگی گزاریں یا اسلام کی چھتری کے نیچے زندگی گزاریں انہیں اپنا الگ تشخص قائم کرنے سے منع کیا بلکہ شیعوں کا تشخص اسلام کو ہی قرار دیا ہے۔
خدا وند متعال نے قرآن کریم میں انسان کو اپنے جیسے انسان سے حاجتیں طلب کرنے سے منع فرمایا۔اس منطق کے تحت کہ یہ لوگ کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ ۔جب ایک عاقل سمجھدار انسان کسی کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا تو ایک جھنڈا جو خود کھڑا نہیں ہو سکتا وہ کیسے انسانوں کی حاجتیں پوری کرے گا۔یہ جھنڈا جو سریون اور سیمنٹ سے بلند ہوا ہے اگر اسے گرا دیا جائے تو دوبارہ بننے میں یہ ان وسائل اور ساز و سامان کا محتاج ہے۔اگر ایک انسان عاقل اس سے جا کر حاجتی طلب کرے تو کیا اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز بات کوئی اور ہو سکتی ہے؟ اس پرچم  کے پرچار کرنے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں تو اپنے قلم و بیان سے واضح کریں کہ اس کے نیچے صندوق کیوں رکھے جاتے ہیں۔؟ اھر خواہش مند حضرات حضرت عباس ع کے نام پر اپنی نیاز اس میں ڈالتے ہیں تو سوال ہئ کہ اس سے جمع ہونے والی آمدنی کس حد تک  دین اور قیام امام حسین ع کے مقصد و ہدف کی سربلندی کیلے خرچ کی جاتی ہے۔ جبکہ یہ رقوم کوچنگ سینٹر،کمپیوتر سینٹر اور اس جیسے کامون پر خرچ کی جاتی ہے حالانکہ ان سرگرمیوں کا دین حضرت عباس ع سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔اس جھنڈے کو مقام و مرتبت دلانے کیلے مندرجہ ذیل نکات کے ذریعے پروپیگنڈا کیا گیا ہے:

1- اس جھنڈے کے چاہنے والون نے کہا،اس سے ہماری حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔
2-اگر اس کے خلاف کسی نے ذرا بھر نقد و انتقاد کی زبان کھولی تو علم اس کی گردن تور دے گا۔اسے عاقبت دردناک کا سامنا ہوگا،جیسے مشرکین بتوں کو برابھلا کہنے والوں سے کہتے تھے،تمہیں ہماری بتوں کی بددعا لگی ہے۔
3- بعض مصالحت آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہتے ہیں ،کم از کم ان کے معتقدین کے سامنے اہانت آمیز جملے یعنی اس کو جھنڈا،کپڑا نہ کہو اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔لیکن یہ عقل و شرع دونون لحاظ سے صحیح نہیں،خداوند عالم نے اپنے انبیاء ع کے ذریعے بت پرستون کے بتوں کے ساتھ جو رویہ رکھا وہ ان کے نظروں سے غائب ہے۔بنی اسرائیل  جن کے دلون میں گائے کی مھبت موجزن تھی ،موسی ع نے انہی گائے کو ذبح کرایا،سامری کے گوسالے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کی راکھ کو ہوا میں اڑایا،پیغمبر اکرم ص نے کعبے  میں موجود بتوں کو اپنے عصا سے پاش پاش کیا۔"

(صفحہ 64 و 65 عقائد و رسومات شیعہ
علامہ آغا علی شرف الدین بلتستانی)

No comments:

Post a Comment