"آیت اللہ برقعی ایک مرتبہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں آقای فلسفی سے ملاقات ہوئی،چنانچہ آقای فلسفی نے برقعی کو گاڑی میں بٹھایا،گفتگو کے دوران آقای فلسفی نے برقعی سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو روضہ خوانی حرام ہے؟
برقعی نے کہا:
میں یقینا کہتا ہوں کہ روضہ خوانی حرام ہے،اس کیلے امداد اور پیسے دینا حرام ہے ۔
آقای فلسفی:
کس لئے حرام ہے؟
برقعی:
میں نے کہا کہ روضہ خوانی میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سب قرآن کے خلاف ہیں اور حقیقت میں یہ پیغمبر و آئمہ ع سے دشمنی کرنا ہے۔
ﺁﻗﺎﻱ ﻓﻠﺴﻔﻲ : کیا میرے لئے بھی! اور پوچھا کہ کیا ان کے منبر بھی حرام ہیں؟
برقعی:یقینا حرام ہے
فلسفی: کس لئے
میں نے ان کو سمجھانے کیلے کہا کہ آقای فلسفی کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک دن عاشورائ کے ایام میں آپ بازار میں منبر پر تھے؟؟
کہا:ہاں بے شک تھا
برقعی: اسی روز میں بازار چلا گیا تھا جب میں نے آپ کی آواز سنی تو میں نے پہچان لیا اور آپ کی گفتگو سننے کیلے کھڑا ہو گیا۔
اور میں نے سنا آپ کہ رہے تھے امام کو ماں کی پیٹ میں غیب کا علم ہوتا ہے ہر چیز جانتا ہے؟
فلسفی: بے شک ایسا ہماری احادیث میں آیا ہے،فلسفی کا مقصد وہ اھادیث جو ﻋﻠﻢ ﺍﻣﺎﻡﻗﺒﻞ ﺍﺯ ﺗﻮﻟﺪ ہے وہی تھا کہ آئمہ نور کے ستونون سے ہر چیز دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
میں نے کہا اولا یہ بات قرآن سے متصادم ہے جہاں فرمایا:
»ﻭﺍﻟﻠﻪﺃﺧﺮﺟﻜﻢ ﻣﻦ ﺑﻄﻮﻥﺃﻣﻬﺎﺗﻜﻢ ﻻ ﺗﻌﻠﻤﻮﻥ ﺷﻴﺌﺎ]21 [ = ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﺷﻤﺎ ﺭﺍ ﺩﺭﺣﺎﻟﻲ ﻛﻪ ﻫﻴﭻ ﭼﻴﺰﻧﻤﻲﺩﺍﻧﺴﺘﻴﺪ، ﺍﺯ ﺷﻜﻢﻣﺎﺩﺭﺍﻧﺘﺎﻥ ﺧﺎﺭﺝ ﺳﺎﺧﺖ «.
ﺛﺎﻧﻴﺎ اسی منبر پہ آُپ نے ﺻﺤﺮﺍﻱﻛﺮﺑﻼ سے متعلق بتایا کہ جس وقت ﻛﻪ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻴﻦ)ﻉ ﻛﻮﻓﻪ کی طرف ایک راستہ سے آنا چاہا تو ، ﺣﺮ ان کی راہ میں پہنچا اور امام کو کوفہ پہنچنے سے روکنے لگے۔ امام نے اس صورتحال کو دیکھ کر دوسرا رستہ اختیار کر لیا جہاں اس راستہ کو چھوڑ کر جہان حر مانع ہوا۔یہان تک کہ ایک جگہ پہنچا جہان امام کے گھورے نے قدم اٹھانا چھوڑ دیا۔امام نے گھورے کو مارا اور بہت کوشش کی لیکن گھورا آگے نہیں برھا،اور حرکت نہیں کی۔امام حیران ہوا کہ آخر یہ گھوڑا آگے حرکت کیوں نہیں کرتا امام کو ایک عربی وہن ملا تو اس کو آواز دی اور اس سے پوچھا :اس زمین کا ﻧﺎﻡکیا ہے؟ ﻋﺮﺏ نے ﺟﻮﺍﺏ دیاﻏﺎﺿﺮﻳﻪ )ﻗﺎﺫﺭﻳﻪ (، ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﻴﻦ )ﻉ نے ( ﺳﺆﺍﻝ کیا:ﺩﻳﮕﺮ کیا نام ہےﺍ؟: ﺷﺎﻃﻲﺀﺍﻟﻔﺮﺍﺕ، ﺍﻣﺎﻡ نے پوچھا :ﺩﻳﮕﺮ ﭼﻪ ﺍﺳﻤﻲﺩﺍﺭﺩ؟ﮔﻔﺖ: ﻧﻴﻨﻮﺍ، ﺍﻣﺎﻡ ﭘﺮﺳﻴﺪ:ﺩﻳﮕﺮ ﭼﻪ ﺍﺳﻤﻲﺩﺍﺭﺩ؟ﮔﻔﺖ: ﻛﺮﺑﻼ، ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻴﻦ)ﻉ ( نے فرمایا: ہاں میں نے اپنے نانا سے سنا ہے کہ فرمایا:
تمہاری خوابگاہ کربلا ہے۔
اس کے بعد میں نے فلسفی سے پوچھا:
آقای فلسفی یہ ایک امام جن کے بارے میں آپ منبر پر کہ رہے تھے کہ ہر چیز کو جانتا ہے مان کی پیٹ سے ہی،اور قرآن پڑھتا ہے(بغیر معلم کے)،کیسے ایسا ہو گیا کہ امام سے پہلے اس کے گھوڑے کو معلوم ہوا کہ یہ سر زمین کونسی ہے؟اور امام کو بعد میں؟
یہاں تک کہ امام کو ایک عربی سے پوچھنا پرا کہ یہ کونسی جگہ ہے؟
ﺟﻨﺎﺏ ﻓﻠﺴﻔﻲ یہ کیسا امام آپ نے گھڑہ لیا ہے ﻛﻪ ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﻪ اس سے قبل اس کا گھورا مطلع ہوتا ہے؟
کیا یہی حب آئمہ ہے؟
کیا یہی معارف اسلام ہے؟ کیوں آپ احادیث پہ غور و تدبر نہیں کرتے ؟؟"
(سوانح ایام آیت اللہ برقعی قمی)
یقینا یہ آقای فلسفی ایک بہترین واعط تھا،اور ان جیسا کوئی اہل منبر نہیں تھا جو اپنی بات کو اچھی طرھ پہنچائے۔
No comments:
Post a Comment