ذوالجناح
عزادری امام حسین عہ میں شبیہ سازی کا ایک کردار امام حسین عہ کی سواری ہی۔ جو کہ امام حسین عہ کی شہادت کے بعد زین خون سے آلودہ ہو کر خیام کی طرف آئ، اہل حرم خیمے سے نکل آئے اور ایک کہرام جیسی مصیبت برپا ہوئ، اس سواری کی شبیہ بنا کر جلوس عزا میں کب لائ گئ اس کی کوئ دقیق تاریخ معلوم نہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ خود جلوس عزا آل بویہ کی حکومت میں ناکالا گیا ۔پوری دنیا میں جہاں جہاں اس گھوڑے کی شبیہ نکلتی ہے وہاں اسے چند گھنٹوں کے لیے استعمال میں رکھا جاتا ہے، لیکن بر صغیر کے عزادروں کو اس شبیہ سے اتنا لگاو ہے یا یہ ان کے حیوان پرست ہماسائیوں کی صحبت کا اثر ہے، کہ انھوں نے اسے اتنا مقام و اعزاز دیا جو کسی عالم و عابد کو بھی حاصل نہیں ہوا۔اس کے لئے املاک، جائداد،خادم وغیرہ وقف کرنا اپنی ایک جگہ پر ایک موضوع ہے،اس سے حاجتیں مانگنا اس وقت کا اہم موضوع ہے، اسی طرح اس کے بت بنا کر امام بارگاہوں اور مسجدوں میں رکھنا ایک نیا موضوع ہے۔ اس گھوڑے کو آج کل مولا بھی کھتے ہیں۔لیکن پہلے ذوالجنح کے نام سے پکارتے تھے،یعنی “ پروں والا گھوڑا“ اس کو پروں والا کھنے کی دلیل میں وہ روایت پیش کی جاتی ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہیں، وہ کچھھ یوں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ نے اپنے کمرے میں ایک پروں والے گھوڑے کی تصویر آویزاں کی ، جب ان سے پیغمبر اکرم صہ نے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا یہ حضرت سلیمان عہ کے گھوڑے کی تصویر ہے جس پر آپ صہ خاموش ہو گئے۔آپ صہ کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل غلط نہیں تھا۔ ماتم داروں کو اپنے اس عمل کی دلیل کے لیئے اس رویت کو پیش کرتے سن کر ہمیں حیرانگی ہوئ کہ ویسے تو حضرت عائشہ کا نام آتے ہی ان کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں۔ لیکن اپنے گھوڑے کی دلیل کے لیئے یہ بڑے ذور و شور سے ان کا نام لیتے ہیں تاکہ ان کی گھوڑا پرستی ثابت ہو جائے۔
اس گھوڑے کو پروں والا اس لیے کہتے ہیں کہ بھت تیز رفتار تھا ہاں یہ صفت اہمیت کی حامل ہے کہ میدان جنگ میں ایسا گھوڑا ہونا چاہیے جو دشمن کا پیچھا کر سکے یا اگر خود بھاگنا ہو اور دشمن پیچھے ہو تو ان کی گرفت میں نہ آئے، لیکن جب حر جعفی نے امام حسین عہ کے سامنے گھوڑے کی ایسی تعریف کی تو آپ نے اسے مسترد کیا۔
یہ گھوڑا وفادار ہے، اس لحاظ سے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔اس منطق میں کسی قسم کا وزن نہیں ہے کیونکہ ہر گھوڑا اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔ امام حسین عہ جس گھوڑے پر سوار تھے وہ ان کا وفادار تھا اور جس گھوڑے پر قاتلان امام عہ سوار تھے وہ ان کے وفادار تھے۔
اس گھوڑے میں ایک خاص صفت پائ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی اتنی قدر ومنزلت ہے ۔اس کے لیئے لاکھوں کی جائدادیں وقف کی جاتی ہیں اس کے سامنے نذریں پیش کی جاتی ہیں۔ وہ صفت یہ ہے کہ اس نے لوگوں کی نظریں امام حسین عہ سے موڑ کر اپنی طرف جذب کر لی ہیں۔اگر مغرب والوں کو اس کی اہمیت کا پتا چلتا تو وہ بھی اس کی حمایت میں مہم چلاتے۔
اس گھوڑے کی ایک صفت گس کی طرف شاید ماتم داروں نے توجہ نہیں کی کہ یہ ایک حیوان ہے۔اس پر شقی و سعید دونوں گروہ سوار ہوتے ہیں،ہاں جس گھوڑے پر مجاہدین دین و شریت کے دفاع کے لیئے سوار ہوتے ہیں وہ گھوڑا ان ماتم داروں سے بہتر ہے جو خداوند متعال سے عجز ونیاز کرنے کی بجائے گھوڑے سے سوال کرتے ہیں اور امام حسین عہ کی جگہ اس گھوڑے کو مولا کہتے ہیں۔
بعض اس گھوڑے کی دلیل میں کہتے ہیں کہ سورہ عادیات میں خداوند عالم نے گھوڑے کی قسم کھائی ہے، اور خدا جس چیز کی قسم کھائے وہ محترم ہوتی ہے لہذا اس کا احترام کرنے میں کوئ قباحت نہیں ہے۔ یہ منطق بھی بنیادی طور پر غلط ہے کیوں کہ خدا نے ہر قسم کے گھوڑے کی قسم نہیں کھائ بلکہ اس گھوڑے کی قسم کھائ ہے کہ جس پر میدان جنگ میں اہل حق سوار ہوتے ہیں۔وہ گھوڑا کیسے محترم ہو سکتا ہے جس نے میدان جنگ میں شرکت نہ کی ہو بلکہ اس کے اوپر فاسق و فاجر انسان اپنے کھیل کود یا ظلم و بربریت کے حصول کے لیئے سوار ہوئے ہوں یا جیسے بعض علاقوں میں پولو کے کھیل میں استعمال ہونے والے گھوڑے یا ایک عرصے سے عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے گھوڑے کیسے یہ منزلت پا سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں اہل تشیع سے تعلق رکھنے والوں سے ہٹ کر ہمارے خطے کے اہل تشیع نے امام حسین عہ کے نام سے منسوب گھوڑے کو ایک مقام و منزلت دی ہے اور اسے خاص نام “ ذوالجناح“ سے نوازا ہے اس کے بارے میں عقل و شریعت، قرآن و سنت اور فقہائے عظام کے رسالہ عملیہ کسی بھی جگہ کوئ سند نہیں ملتی۔اہل بیت عہ سے تعلق کا شرف و افتخار رکھنے والوں کے چہرہ سے اس بد نما داغ کو دھونے کے لئے اس سواری کے بارے میں چند زاویوں سے بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے:
١- تاریخی تناظر:- یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے حالت سفر یا جنگ میں سشمن سے نبرد آزمائ کے وقت ایک سواری کا ہونا ضروری ہے اور اسے فریق مخالف کے مقابلے میں ایک طاقت و قدرت سمجھا جاتا تھا اس لئے میدان جنگ میں فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا
(ا) پیادہ فوج (ب) گھڑ سوار فوج امام حسین عہ گرچہ اپنے والد کے ہمراہ جنگوں میں شریک رہے لیکن میدان کربلا میں چونکہ لشکر باطل کے مقابلے میں انتظام و انصرام کی لجام خود امام حسین عہ کے ہاتھھ تھی اس لیئے امام حسین عہ کے پاس ایک سواری کا ہونا حتمی تھا۔ جب ہم تاریخ و مقاتل کربلا پڑھتے ہیں تو امام حسین عہ کی سواری کے بارے میں مختلف ذکر ملتے ہیں لیکن یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ امام حسین عہ کے حالت سفر جس کا آغاز مدینہ سے ہوا اور کربلا پہچنے تک کسی ایک سواری کے نام کا ذکر نہیں ملتا-
الف-- صبح عاشور جب امام حسین عہ اپنے اصحاب کے ساتھھ لشکر اعداء سے خطاب کرنے گئے تو آپ عہ اونٹ پر سوار تھے
ب-- بعض مقاتل میں لکھا ہے کہ امام حسین عہ نیدان کربلا میں جنگ کے لیئے جس گھوڑے پر سوار ہو کر گئے یہ گھوڑا رسول اکرم صہ کی طرف سے آپ عہ کو ملا تھا اور اس کا نام “ مر تجز “ تھا
ج-- جب امام حسین عہ اپنی سواری کی زین پر رہ کر جنگ جاری نہ رکھھ سکے تو آپ عہ زمین پر اتر گئے اور آپ عہ کی سواری “ فرس “ آپ کے خیمے کی ظرف آگئی
د-- جب آپ عہ کے اہلیبیت نے آپ عہ کے گھوڑے کی آواز سنی تو خیمے سے باہر آگئے اور آپ عہ کے گھوڑے جس کا ذکر (لفظ جواد ) آیا ہے کی زین کی طرف دیکھا تو اہلیبیت نے فریاد و فغاں بلند کی-
ہ-- ذوالجناح دو کلموں کا مرکب ہے ایک “ ذو“ دوسرا “ جناح“ ذو عربی میں صاحب کو کھتے ہیں اور جناح پر یا بازو کو کہتے ہیں- سورہ انعام آیت ٣٨ سورہ شوریٰ آیت ٢١٥ سورہ حجر ٨٨ سورہ اسراء ٢٤ میں لفظ موجود ہیں- ذوالجناح یعنی صاحب پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سواری صاحب پر (اڑنے والی) تھی اس نام سے امام حسین عہ کی سواری کا ذکر تاریخی مقاتل میں کہیں نہیں ملتا بلکہ ایسا گھوڑا جا صاحب پر ہو اور اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو کربلا کیا کسی جنگ میں بھی اس سواری کا کوئ ذکر نہیں ملتا-
٢) :- دنیا کے کچھھ علاقوں میں اہل تشیع دسویں محرم کو ایک گھوڑے جس پر تیر کمان اور تلوار نصب کرنے کے علاوہ اس کی زین کو بھی خون آلود کر کے لاتے ہیں تاکہ ان واقعات کی منظر کشی کی جا سکے جو شہادت امام حسین عہ کے بعد پیش آئے لیکن یہ گھوڑا عصر عاشور کے بعد امام حسین عہ سے منسوب نہیں رہتا اور نہ ہی اس کو وہ مقام و منزلت حاصل رہتی بلکہ یہ اپنی عادی شکل میں پلٹ جاتا ہے لیکن ہمارے خطے میب جو مقام و منزلت اس گھوڑے کو دیا گیا ہے وہ ما فوق العقل و شریعت ہے- بعض اس کی سند میں مختلف منطق پیش کرتے ہیں جو اپنی جگہ مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہیں- جس طرح چکنے ہاتھھ کو پانی مس نہیں کر سکتا اس طرح ان کی منطق سے اس گھوڑے کو کوئ مقام و منزلت نہیں مل سکتی ہے۔ ان کی منطق کچھھ یوں ہیں:
بعضوں کا کہنا ہے کہ اس کی احترام کی علت امام حسین عہ سے منسوب ہونا ہے- اس سلسلے میں کسی چیز سے منسوب کی حیثیت اور احترام کے بارے میں وضاحت کی ضرورت ہے- نسبت کی دو اقسام ہیں: ١) نسبت حقیقی ٢) نسبت جعلی
١) نسبت حقیقی : حقیقی نسبت وہ ہے کہ واقعی منسوب ہو جیسے واقعی اس کا بیٹا ہے ، واقعی اس کی بیوی یا واقعی اس کا گھر ہےجس میں وہ قیام پذیر ہے ۔اسے نسبت حقیقی کہتے ہیں ،ہر منسوب چیز محترم نہیں ہوتی، جیسے حضرت نوح عہ کا بیٹا اور حضرت نوح عہ کی بیوی ان سے حقیقی نسبت کے باوجود کوئ افتخار نہیں رکھتے۔حضرت لوط عہ کی بیوی بھی محترم نہیں ہیں۔ خدا نے ان لوگوں کو اہل کفر کا نمونہ کہا ہے۔ تاریخ میں کہیں نہیں ملتا کہ آئمہ عہ جس گھر میں قیام پذیر تھے یا امام عہ کے ہاتھھ کا لگا ہوا کوئ درخت یا ان کا کوئ حیوان جس پر امام عہ سوار ہوئے ہوں لوگوں نے اسے وہ عزت وافتخار دیا ہو جو عام انسانوں کو بھی حاصل نہ ہو۔ بلکہ اس کے بر خلاف رسول اکرم صہ نے کعبہ سے منسوب حیوان (اونٹ) پر حاجی کو سوار ہونے کا حکم دیا-
٢) نسبت جعلی و اختیاری :- یعنی جس کا کوئ وجود ہی نہ ہو جیسے آج کل کے گھوڑے جن کو امام حسین عہ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، کسیکے نسبت دینے سے وہ چیز منسوب نہیں ہو سکتی- خداوند عالم نے قرآن میں دور جاہلیت میں رائج نظام “تبنی“ (یعنی کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہنا) کی نسبت کو باطل قرار دیا ہے مندرجہ ذیل آیات میں واضح ہیں:
الف) جن کو تم ماں کہتے ہو وہ واقعی ماں نہیں:- “ اور تمھاری وہ بیویاں جن سے تم ظہار کرتے ہو انھیں تمھاری واقعی ماں نہیں قرار دیا ہے“ (احزاب آیت ٤) “ تاکہ مومنین کے لئے منھھ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئ حرج نہ رہے“ ( احزاب آیت ٣٧)
ب) جن کو تم منہ بولے بیٹا کہتے ہو وہ تمھاری حقیقی اولاد نہیں ہو سکتے:- اور نہ تمھاری منہ بولی اولاد کو اولاد قرار دیا ہے “ (احزاب ٤) “ ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے“ (احزاب ٥) “ محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں “ (احزاب ٤٠)
جس بچے کو رسول اکرم صہ نے اپنی طرف نسبت دی تھی وہ بیٹا ان سے منسوب نہ ہو سکا تو ہمارا کسی حیوان کو امام حسین عہ کی طرف نسبت دینے سے وہ کیسے منسوب ہو سکتا ہے - ادیان سماوی میں تمام انبیاء سے لے کر رسول اکرم صہ تک خاص کر اسلام میں کسی مرنے والے حیوان کی نماز جنازہ پڑھنے کی کوئ دلیل ومنطق نہیں ملتی لیکن بلتستان(Baltistan) میں مستقل طور پر امام حسین عہ کے نام گھوڑا پالنے اور امام حسین عہ کے نام پر نکانے کے لیےخاص طور سے پنجاب سے ایک گھوڑا درآمد کیا گیا،معلوم نہیں وہ کس نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کا باقاعدہ استقبال ہوا اور گھر گھر لے جاکر اسے نہلایا گیا اور جس پانی سے اس کو نہلایا گیا اس کو جمع کر کے تبرک کے طور پر پیا گیا-
قرآن کریم میں حضرت سلیمان عہ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ خدا کے حکم سے پرندوں کی آواز سنتے اور سمجھتے تھے۔ان کے علاوہ کسی نبی اور آئمہ عہ کے بارے میں کوئ روایت نہیں ملتی - قرآن و سنت اور نہ ہی جدید تحقیق سے یہ بات کشف ہوئ ہے کہ جانور انسان کی بات سنتے اور سمجھتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں بعض افراد اس حیوان کے کان میں منہ رکھھ کر اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں اگر یہ مذہب کا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے ؟
No comments:
Post a Comment