آقای احمد الکاتب کے عقائد(مکمل 50 نکات)
احمد الکاتب ایک مشہور عراقی اسکالر ہیں جن کی پیدائش کربلا مین ہوئے۔آپ کا تعلق اور سلسلہ جناب حبیب ابن مظاہر اسدی کے بھائی سے ملتا ہے جنہوں نے امام حسین ع کے ساتھ کربلا میں اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا۔آپ کی کتب اور مباحث عراق اور عالم اسلام میں بہت مشہور ہیں۔آپ کا شمار معتدل علمائے شیعہ مین ہوتا ہے(اثنا عشری کا لفظ ہم نے استعمال نہیں کیا)۔
ان کے عقائد و نظریات یہ ہیں:
1- ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔
2-ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ،یوم آخرت،ملائکہ ،آسمانی کتباور تمام انبیاء پر۔
3-ہم عقیدہ و منھج اسلامی کا التزام اور عبادات و احکام و اخلاق کو۔
4- ہم عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ قرآن میں آیا ہے۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا” الأحزاب 30
اور محمد ص کے بعد رسالت اسلامی ختم ہوا۔اور وحی کا نزول بھی آپ پر ھی ختم ہوا۔اور لوگ اب کتاب اللہ اور سنت صحیحہ اور عقل سلیم کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں۔
5- ہم ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮬﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽﺗﺤﺮﯾﻒ،ﺗﻼﻋﺐ،ﺍﻭﺭ ﮐﻤﯽﻭ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺷﮏﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺎ ﺧﻮﺩﺫﻣﮧ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ۔ :
سورہ حجر آیت 9 ْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ”
ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻗﺪﯾﻢ ﮐﺘﺐﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺿﻌﯿﻒ ﯾﺎﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕ روایات ھیں۔جن کو غلاۃ(شیعہ کا غلو کرنے والا طبقہ) نے اھل بیت ع کے نام سے گھڑا ھے.اور تاریخ میں علمائے شیعہ نے ان روایات پر تنقید اور ان سے لاتعلقی کا اظھار کیا ھے.افسوس کا مقام ھے کہ بعض شیعہ مخالف گروہ ان تاریخی جھوٹی روایات تحریف کو بنیاد بنا کر شیعوں پر تحریف قرآن کا الزام لگاتے ھیں.اور ان کو قتل کرنے اور کافر اور منحرف عقیدہ قرار دیتے ھیں(.جس کی بنیاد یھی من گھڑت غالیوں کے روایات ھیں.).
6- ہم رسول اللہ ص کے پاک صحابہ خصوصا مہاجرین و انصار اور اہل بیت ع کا احترام کرتے ہیں۔اور ان میں سے صالحین سے ہم راضی ہیں۔لیکن ہم ان سب کو معصوم بھی نہیں سمجھتے۔اور ہم ان پہ سب و شتم اور برائی منسوب کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔اور خصوصا حضرت سیدہ عائشہ ام المومنین کو سبکرنے کو۔اور ہمرا ایمان ہے کہ اللہ نے آپ کو بری کیا قضیہ افک سے۔
7- ﮨﻢ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﺍﺳﻼﻡ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﯾﻦ ﮨﮯجس میںﺳﯿﺎﺳﯽ،ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ کے احکام موجود ھیں۔جنﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺍﺧﻼﻕ ﺳﻠﯿﻤﮧ ﮨﮯ۔ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﻣﻨﺼﻮﺹ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎﺳﯿﺎﺳﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﻠﮯ اور اس پر کوئی معین نص موجودنھیں،ﭘﺲ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻧﻈﺎﻡﺷﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﯽﮨﮯ(تصور پیش کیاھے)۔ﺍﻭﺭﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ (اپنا حاکم) ﺍﻥﮐﮯ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯿﻠﮯ اختیار کرنے کی آزادی دی ھے ﻇﺮﻭﻑ ﺯﻣﺎﻧﯽ ﻭ ﻣﮑﺎﻧﯽﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ۔ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﻧﮯ ﮐﺴﯽﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﯿﻠﮯﻣﻨﺼﻮﺹ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ﭘﺲﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﻧﮯ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻧﭻﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ ﻣﻨﺘﺨﺐﮐﺌﮯ۔ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ،ﻋﻤﺮ،ﻋﺜﻤﺎﻥ،ﻋﻠﯽﻭﺣﺴﻦ، ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ.
8- ہم اعتقاد نہیں رکھتے کہ امامت ایک ملحقہ جزو ہے نبوت کے ساتھ۔ یا یہ کہ اس کی تشکیل کیلے اس کی امتداد چاہیے۔اور نہ ہی ہم امامت کو اصول دین میں سے ایک اصل اور نہ ہی ارکان اسلام میں سے ایک رکن سمجھتے ہیں۔کیونکہ قرآن مجید نے اس کے بارے میں ذکر نہیں کیا۔اور لیکن یہ امامت ایک فرعی مسئلہ ہے جس کا شمار فقہ سیاسی میں ہوتا ہے۔ﺍﻭﺭ ﻇﻨﯽ ﺗﺎﻭﯾﻼﺕ ﺟﻮ ﮐﮧ اس سے متعلق ھیں وہ سبﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﯿﮟ۔
9- ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻋﻘﯿﺪﮦﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺴﯽ ﺍﻣﺎﻡ(ﺍﯼ ﺭﺋﯿﺲ ﺍﻟﺪﻭﻟﮧ ) کیلے معصوم ﮨﻮﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ،ﯾﺎ ﺍﺱﮐﻮ ﺍﻥ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻃﺮﺡﻭﺣﯽ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﯾﺎﺍﺱ ﮐﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﻖﺗﺼﺮﻑ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ،ﯾﺎ ﺍﺱﮐﮯ ﺍﻭﺍﻣﺮ(حکم) ﺭﺳﻮﻝ ﺹ ﮐﮯﺍﻭﺍﻣﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻭﺭ ﺍﺱﮐﮯ ﻧﻮﺍﮬﯽ (منع کرنا)ﺭﺳﻮﻝ ﺹ ﮐﮯﻣﻨﺎﮬﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭﻧﮧ ﮨﯽ ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻣﺖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﻮﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺣﺎﮐﻢﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﻨﺼﻮﺹ ﮨﻮ۔ﺍﻭﺭ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺒﮭﯽﺣﺠﺖ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ،ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔
-10 ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟﮐﮧ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ عﻧﻈﺎﻡ ﺷﻮﺭﯼﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﻮ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻟﮩﯽﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ،ﻧﮧ ﮨﯽﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﺎ ﮐﮧﻭﮦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﻧﮧﮨﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻏﯿﺐ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﺎ۔ﻭﮦ ﺭﺳﻮﻝ ﺹﮐﮯ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﮯ۔ﻧﮧﮨﯽ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﻉ ﻣﻌﯿﻦ ﻭﻣﻨﺼﻮﺏ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧﮬﮯ،ﻧﮧﻭﮦ ﻋﻠﻢ ﻏﯿﺐ ﺟﺎﻧﺘﮯﺗﮭﮯ،ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯﮐﻮﺋﯽ ﻭﻻﯾﺖ ﺗﺸﺮﯾﻌﯽ ﯾﺎﺗﮑﻮﯾﻨﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﯽ،ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻏﺎﻟﯿﻮﮞ (ﻏﻼٰۃ) ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﮨﮯ۔
10- ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہل بیت نظام شوری پر ایمان رکھتے تھے۔اور ان کو نظریہ امامت الہی کا علم نہیں تھا،نہ ہی انہوں نے دعوی کیا کہ وہ معصوم ہیں۔اور نہ ہی انہوں نے غیب دانی کا دعوی کیا۔وہ رسول ص کے احادیث کے روایت کرنے والے عالم تھے۔نہ ہی اہل بیت ع معین و منصوب من اللہ ےھے،نہ وہ علم غیب جانتے تھے،اور نہ ہی ان کیلے کوئی ولایت تشریعی یا تکوینی حاصل تھی،جیسا کہ بعض غالیوں(غلاٰۃ) کا دعوی ہے۔
11- ﯾﮧ ﻗﻮﻝ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﻉ ﮐﯽ ﺧﻼﻓﺖﮐﯿﻠﮯ ﻧﺺ ﺟﻠﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﺗﮭﺎ،ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ،ﯾﺎﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺩﻭﺳﺮﯼﺻﺪﯼ ﮨﺠﺮﯼ (199-100 هج)ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ،ﺍﺱﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﺎ ﺍﺱﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺱ (موضوع)ﮐﮯ ﮔﺮﺩ بحث و جدل بے فائدہ ھے( اس کا نہ ضرر ھے نہ کوئی نفع)۔اور نہ ھی اس بحث کی وجہ سے ھم زمانے کا کایہ پلٹ سکتے ھیں.ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻋﻠﯽ ﻉﮐﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﮯ ﮐﺴﯽﻧﺺ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﻭ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺁﭖ ﮐﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺑﺎﻟﻠﮧ،ﻭﺍﯾﻤﺎﻥﺑﺎﻟﺮﺳﺎﻟﺖ، ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡﮐﯿﻠﮯﺁﭖﮐﯽﻗﺮﺑﺎﻧﯽ،ﺍﻟﺘﺰﺍﻡﺣﻖ،ﻋﺪﻝﻭﻣﺴﺎﻭﺍﺕﺑﯿﻦﺍﻟﻤﺴﻠﻤﯿﻦ،ﺯﮨﺪﺩﻧﯿﺎ،ﺗﻮﺍﺿﻊ ،ﺷﻮﺭﯼ ﺍﻭﺭﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ یہ آپ کے فضائل کا ثبوت ھے۔ﺁﭖ ﻉ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﺭﺕﮐﺎ ﻣﻨﺼﺐ ﺳﻨﺒﮭﺎﻻ ﺟﺐﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﯽ۔
12- ﻋﻠﯽ ﻉ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪﺧﻼﻓﺖ ﻭ ﺍمامت ﮐﻮ ﺷﻮﺭﯼﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌﺍ۔ﺟﺲ ﻃﺮﺡﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﻧﮯ ﭼﮭﻮﮌﺍﺗﮭﺎ۔ﺁﭖ ﻉ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯﺣﺴﻦ ﻉ ﮐﻮ ﻭﻟﯽ ﻋﮭﺪﻣﻘﺮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺑﮯﺷﮏ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﮐﻮ ﺧﻮﺩﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺨﻮﺷﯽﺍﻣﺎﻡ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯿﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽﻃﺮﺡ ﺍﮨﻞ ﮐﻮﻓﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﯿﻦ ﻉ ﮐﻮ۔ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﯿﻦ ﻉ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻠﯿﻔﮧﻣﻌﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﭘﺮﻓﺮﺽ قرار دیا۔ﺍﻭﺭ ﺣﺴﯿﻦ ع ﮐﮯﺑﺎﻗﯽ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﻌﯿﻦ ﯾﺎﻭﺻﯿﺖ ﻧﮩﯿﮟ کی ﺍﻭﺭ ﻧﮧﮨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ ﺍﺱﮐﻮ ﻓﺮﺽ قرار دیا۔
13-ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼ ﺳﻦ260 ﮬﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻻﻭﻟﺪ(بغیر اولاد کے)ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ کسی کوﻭﺻﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﯽ۔ﻧﮧﮨﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺨﻔﯽﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﺍﮎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﯾﮧﺑﺎﺕ(لاولدھونا) ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟﻭﺍﺿﺢ ﺗﮭﯽ۔
14- ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﯽﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺎﺭﮬﻮﯾﮟ ﺍﻣﺎﻡﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺎﺋﺐ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺁﺝ1500 ﮐﮯ ﻟﮓ ﺑﮭﮓبتاﯾﺎﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﯾﺴﺎﮐﮩﻨﺎ ﻭﮨﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﮨﮯ۔ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽﺷﺮﻋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﺗﺎﺭﯾﺨﯽ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺭﻭﮬﻮﺍﮞﺍﻣﺎﻡکے وجود ﮐﻮ ﻓﺮﺿﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮﺑﻌﺾ ﺍﻣﺎﻣﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﮦ ﻧﮯ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﺎﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼ ﻻﻭﻟﺪ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺋﮯ
15- ﮨﻢ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ"ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ" ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥﻧﮩﯿﮟﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﺩﻧﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮨﮯﺟﺴﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﻔﺎﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞﮐﯿﻠﮯ ﻣﻌﯿﻦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ (ﮐﺴﯽ )ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮭﺪﯼ ﮐﮯ ﻇﮩﻮﺭﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻄﻌﯽﺩﻟﯿﻞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔۔
16-ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺫﯾﻞﻣﯿﮟ: ﮨﻢاﻣﺎﻡﻣﮭﺪﯼﮐﯿﻠﮯﮐﺴﯽﻧﯿﺎﺑﺖﺧﺎﺻﮧﻧﻮﺍﺏﺍﺭﺑﻌﮧ۔ﺳﻔﺮﺍﺀ ﺍﺭﺑﻌﮧ ) ﺍﻭﺭﻧﯿﺎﺑﺖ ﻋﺎﻣﮧ (ﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﯿﻠﮯﻧﯿﺎﺑﺖ ﮨﻮﻧﮯ) ﮐﺎبھیﯾﻘﯿﻦﻧﮩﯿﮟﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﺍﻣﺎﻡ ﻣﮭﺪﯼ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮﮐﺒﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻏﺎﺋﺐ ﺑﮭﯽﮨﻮﮔﯿﺎ! ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺱ کوﺍﯾﮏ ﻓﺮﺿﯽ ﻭ ﻇﻨﯽ ﺩﻋﻮﯼﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺟﺲ ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽﺷﺮﻋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ اور يہ دعوي دراصل ان اشکالات کو حل کرنے کی کوشش میں وجود میں آیا جب ان کو اپنی قیادت کی وفات کا سامنا کرنا پڑا.ﺍن ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﯾﮧﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺟﻮﺩ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﺭﮬﻮﺍﻥﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﯿﺒﺖ بنا۔
17- ﮬﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﺑﮭﯽﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮐﮧﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﯿﺴﮧﮐﮯ ﻣﺸﺎﺑﮧ "ﻧﻈﺎﻡ ﻣﺮﺟﻌﯿﺖ" ﮨﮯ،ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻠﻤﺎء ﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ(ﺩﯾﻨﯽ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﻣﯿﮟ )ﺭﺟﻮﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔ﺍﺳﯽﻟﺌﮯ ﮨﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﯿﻠﮯﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﻮ ﻭﺍﺟﺐﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﻓﻘﯿﮧ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﯽﺍﺧﺘﺼﺎﺭ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟﻭﺍﺟﺐ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺑﻠﮑﮧﮨﻢ ﺣﺮﻣﺖ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺱﺗﻘﻠﯿﺪ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﻮ بدعتﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟﺍﺗﺎﺭﯼ۔ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺗﻤﺎﻡ ﻗﺪﺭﺕﯾﺎ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯﻣﮑﻠﻔﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯﮨﯿﻦ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺻﻮﻝ ﻭﻓﺮﻭﻉ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟﺍﺟﺘﮩﺎﺩ ،ﻏﻮﺭ ﻭ ﻓﮑﺮ ﺍﻭﺭتحقیق ﮐﻮﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯﺗﮭﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺷﯿﺦﻃﻮﺳﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧﻣﺨﺘﻠﻒ ﺁﺭﺍﺀ ﮐﻮ ﺩﺭﺍﺳﺖﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﺻﺎﺋﺐ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﻮ ﺍختیاﺮﮐﺮﯾﮟ۔
18- جیسا ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻋﻮﺕﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺠﺘﮩﺪﯾﻦ ﮐﻮﮐﮧ ﻭﮦ ﻓﻘﮧ ﻭ ﺍﺻﻮﻝ ﻣﯿﮟﺍﭘﻨﮯ دﺭﺍﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻡﺍﻗﺘﺼﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ﺑﻠﮑﮧﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﻋﻮﺕﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﻘﺎﺋﺪﺍﺳﻼﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯﺩﺭﺍﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺼﻮﺻﺎﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻟﮩﯽ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﺎﺥ ﮨﮯﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ 12 واں امامﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩﮐﻮ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺱﻣﯿﮟﺑﮭﯽ ﻋﺪﻡ ﺍﻗﺘﺼﺎﺭ ﮐﻮﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ؔ
19- ھم علماء سے متعلق مراقبت،احتساب اور نقد کا نظریہ رکھتے ھیں.پس وہ جو فتوی دیتے ھیں.وہ کل کے کل صحیح اور ھمیشہ شریعت کے مطابق ھے؟ پس تحقیق اکثر علماء بھی شبھات اور اھواء کا شکار ھوتے ھیں .پس وہ اس چیز کو جسے اللہ نے حلال کیا اس کو حرام اور جس چیز کو حرام کیا اس کو حلال کرلیتے ھیں.(جیسا کہ ان کا قول کہ خمس واجب ھے اور معین کرنا نماز جمعہ کو کہ غیر واجب ھے۔).
20- ہم علماء کے فتاوی کو شرعی اور قانونی طور پر لازمی طور پر پابندی کو لازمی نہیں سمجھتے۔الا یہ کہ ان کا فتاوی ایک دستوری اجماع ایسے مجالس شوری جس کو امت نے منتخب کیا ہو اس میں اجماع کے ذریعے فتوی دیا ہو۔
21-ھم اصولی شیعہ مسلک کی قدر کرتے ھیں جس نے اجتھاد کا دروازہ کھولا اورتشیع کو توازن و اعتدال کی طرف لوٹایا. اور اخباری شیعوں کے بہت سے خرافات اور اساطیر کو ترک کیا.اور ھم فقھاء سے اصول و فروع اور رجال و حدیث میں مزید عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ھیں.اور غلاۃ مفوضہ جو اھل بیت ع کی طرف صفات ربوبیت کو منسوب کرتے ھیں اور ان سے متعلق غلو کرتے ھیں اور ان کیلے مقامات علیا کرتے ھیں اور بشر سے اوپر اور خدائی صفات کے قائل ھیں جیسے ولایت تکوینی تفویض اور خلق و رزق،ان کا بھی مکافحہ ھونا چاھیے.
22-همارے اس دورمیں علماۓ شیعہ کی کوشش لائق تحسین ھے خصوصا اصولی شیعہ مسلک کی جنھوں نے دراست حدیث اور علم رجال کا کام کیا ھے اور الکافی میں موجود تمام احادیث میں کے 5 حصوں میں سے 4 حصہ کو ضعیف قرار دیا.ان کو ھم دعوت دیتے ھیں کہ جو احادیث باقی بچ گئے ھیں اور ان کو سابق علما نے درست یا مستند کہا ھے ان پر نظرثانی کریں.کیونکہ بعض غالی جو نے احادیث کے راوی کے روپ میں آئے اور ان کے روایات کو درست قرار دیا گیا اور وہ اپنے مشن میں کامیاب ھوئے.اسی وجہ سے ھمیں الکافی کی ھر 100 میں سے 99 احادیث پر شک ھوتا ھے اور اسی قسم کی (غالیوں کی)احادیث کی وجہ سے مسلمان مسلسل (فرقہ وارانہ) اختلافات کا شکار ھیں.
23-ھم حکومت رجال دین(تھیوکریسی) پر ایمان نھیں رکھتے اور نہ ھی ولایت فقیہ پر.جو کہ فقیہ کو مطلق اختیارات دیتا ھے اور اس کو قانون سے بالاتر مقام دیتا ھے اور اس کو تجاوز کرنے دستور میں ! ھم اگرچہ ولایت فقیہ کو اس نظریہ انتظار مھدی سے کی نسبت مثبت نظریہ سمجھتے ھیں کہ جس میں امامت الہی کی بنیاد،عصمت اور علوی حسینی ھونے کی شرط اتھارٹی ھے. جب کہ ولایت فقیہ ایمان،شوری کی بنیاد کو اتھارٹی سمجھتا ھے.ھمارا اعتقاد ھے کہ نظریہ ولایت فقیہ ایک حادثاتی نظریہ ھے جس کی کوئی شرعی دلیل موجود نھیں.اور محقق علما اس کو مانتے نہیں کیونکہ یہ حاکم کو دینی اسٹیٹس دیتا ھے اور اس کے گرد مقدس ھالہ بناتا ھے اور اس کو محاسبہ اور جانچ پڑتال سے استثنا دیتا ھے.اور نقد و تغییر سے بھی.اور اس کو ایک استبدادی ڈکٹیٹر بناتا ھے اور یہاںدیتے ھیں اس سے افضل نظریہ اور قیام کی کہ جس کی بنیاد کا محور شخصی صلاحیات اور عوام کی جانب سے(شوری) انتخاب ھو.
24-ھم دیگر مذاھب اسلامی کیلے وسعت نظری رکھنے پر یقین رکھتے ھیں.اور ان کے اجتھادات کا بھی احترام کرتے ھیں.اور ھم عملی طور پر شیعہ سنی کو مشترکہ اجتھاد کی دعوت دیتے ھیںاور قرآن کی طرف رجوع کی.اور قرآن کو باقی تمام مصادر شریعت کا اول اور اعلی مصدر شریعت قرار دینے کی دعوت دیتے ھیں
25-ھم تمام شیعہ و سنی احادیث کے مصادر کا احترام کرتے ھیں.لیکن ھم ان مصادر احادیث میں سے جو ضعیف احادیث رسول ص کی طرف منسوب ھیں اور قرآن و عقل اور علم کے مخالف ھیں.ایسی احادیث کی تنقیح کا مطالبہ کرتے ھیں.
26- ھم شیعہ و سنی دینی مدارس اور حوزات علمیہ کے باھمی میل جول کے قائل ھیں.مکتب کے پروگرام،اساتذہ اور طلباء کیلے ایک ماحول اور حدود میں رھتے ھوئے آزادی رائے اور بحث و تقابل مسالک کیلے اقدامات کیے جایں.
27- ہم وسعت نظر کے قائل ہیں دوسروں کے ثقافت سے متعلق، اور سب گروہوں کیلے ثقافتی وسائل و ذرائع کی فراہمی کی آزادی کے حق میں ہیں،اور دوسروں کے ثقافتی پراڈکٹس کو کنٹرول کرنے اور پابندی لگانے کے حق میں نہیں۔
28-ھم وحدت عالم اسلامی پر ایمان رکھتے ھیں.ھم فرقہ کی تمیز(اس کی بنیاد پر تفریق) سے علحیدہ ھیں.اور ھم ھر ملک میں وحدت وطنی اور مختلف فرقوں کے درمیان سیاسی اشتراک پر عمل کے داعی ھیں جس کی بنیاد ملک،حریت،عدالت و مساوات ھو۔
29- ھم یقین رکھتے ہیں کہ شدت پسندی کا حل دستوری موسسات کے قیام اور ڈیموکریٹک نظام اور پر امن اتھارٹی کے استعمال کرنے سے ممکنہے اس طرح تنازعات جس کا نتیجہ تشدد ہو اور انتشار کے طور پر ملتا ہے اس نظام کے تحت حل کرنے میں مدد ملے گی۔اور کسی فوجی طاقت و قوت کے زور کی ضرورت بھی اس صورت میں نہیں رہے گی(اگر اس طور پہ حل نکالا جائے تو)۔
30- ہم دعوت دیتے ھیں کہ فرقوں کے درمیان بے فائدہ جدل و جنگ کو بند کیا جائے. اور دوسروں کے شعائر یا مقدسات پر حملہ کر کے ان کو اشتعال دلانے کے اعمال کو روکا جائے مشتعل خصوصا صحابہ کرام،اھل بیت اطھار اور آیمہ مذاھب سے متعلق دوسروں
31- ھم یہاں اسی مناسبت سے احیاء کرنا چاھتے ھیں "مؤتمر النجف الاشرف" جو تاریخ میں شوال 1156 ھجری بمطابق 1743 عیسوے میں ھوا.جس میں عرب،ترک فارس اور افغانستان کے شیعہ وسنی علماء شریک ھوئے.جس کی صدارت سنی شیخ عبداللہ السویدی،مفتی افغان ملا حمزہ القلنجانی!مفتی ایران ملا باشی علی اکبر اور مرجع کربلائی سید نصراللہ الحائری نے کی.جنھوں نے مشترکہ اتحاد پر مبنی شیعہ و سنی علماء نے فتوی صادر کیے.اور جس میں شیعہ نے سب صحابہ کو ترک کرنے،جب کہ اھل سنت نے شیعہ کو (مسلمان فرقہ کے طور پر)تسلیم کیا.اور اس میں یۂ اظھار کیا کہ تمام الزامات اور غلطیوں کو جو بعض فروعی مسائل میں تھے حریت و آزادی اختلاف قرار دیا اور شیعہ و سنی علماء نے ان موقع پر ایک دوسرے کے خون بہانے کو حرام قرار دیا.
.
32-ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ (اصحاب رسول ص پر)نقد ،سب ،لعنت کرنا اور تکفیر منافق و مرتد ھونے کا الزام یہ ایک فتنہ ھے جس فتنہ کبری میں مسلمان بہ گئے اور اس نے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کیا.اور ضروری ھے کہ اب اس فائل کے چیپٹر کو کلوز کرے، یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ ہم تاریخ کے ان زخموں کو تاقیامت کھولتے رہیں۔
33- - اور ضروری ھے کہ ماضی کے صفحات کو لپیٹا جائے.اور احداث و واقعات تاریخ میں گہرا غوطۂ زن ھونے کی بجائے اس کو صرف عبرت کے حصول کے طور پر پڑھا جائے.
34-ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہل تشیع کے پاس مثبت مبادی ہیں بہت سے جیسے کہ عدل،اسلام کا دفاع اور عمل فی سبیل اللہ اور ظالمین کے خلاف قیام۔اور یہی وہ امور ہیں جن کی حاجت آج کے مسلمانوں کو ہے۔ تاکہ اپنے آپ کو طاغوت سرکش ظالمین کے خلاف کھڑے کر سکیں اور غیر ملکی تسلط سے اپنی زمینوں کو چھڑا سکیں۔لیکن ہم جدل اور بحث جو نظرية “الإمامة الإلهية” اور امامت پر اللہ کی جانب سے نص پر ہے اس کو ہم اس کو ترک کرتے ہیں کیونکہ یہ بے فائدہ بحث ہے۔اور اس کا نقصان فائدہ سے زیادہ ہے۔اور اس کے نتائج ناپسندیدہ ہیں۔ اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے اور مسلمانوں میں سے بعض کا بعض سے دشمنی کو بڑھاتا ہے۔
35- - ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ زکوۃ دینا واجب ہے اور اس کے لئے عملی اقدامات کی دوعت دیتے ہیں ۔اور شیعہ و سنی کے تفریق ختم کرنے کی،دعوت دیتے ہیں۔ کیونکہ اللہ نے اہل دین کیلے معین نہیں کیا یہ حد شیعہ و سنی کی زکوۃ دتے ہوئے،،بلکہ یہ فرض کیا کہ صالح فقراء کو انسانوں میں دئے جائیں۔
36- - ھم خمس کے واجب ہونے کا اعتقاد نہین رکھتے،بلکہ اس خمس کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ(خمس دینا) یہ غنائم جنگ تک ہی محدود ہے اسی میں واقع ہوا ہے۔اور علی نے اپنی دور خلافت و حکومت میں اس (خمس دینے /لینے پہ عمل نہیں کیا) کا حکم نہین دیا ۔اور بلکہ اگر صحیح روایات شیعہ اور سابق علماء کے فتاوی اس بات کی تائید کرتے ہیں "عصر غیبت امام زمان" میں خمس دینے سے متعلق ۔ بے شک offcourse ہم اس کے متعلق ایمان نہیں رکھتے کہ خمس فقہاء یا ان کے وکلاء کو دی جائے۔کیونکہ ایسا کرنا ایک جدید رائے ہے جس کا پتہ سابق علمائے شیعہ جیسے المفيد والمرتضى والطوسي کو نہیں تھا۔بلکہ یہ لوگ اس خمس کے متعلق اپنے شبہات confusion کا اظہار کرتے تھے اور فتوی دیتے تھے کہ اس کو جمع کر دیا جائے یا اس کو زمین میں دفن کیا جائے امام زمانہ کے آنے تک۔، اور ہم علماء کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ علم کی تحصیل اور دعوت و ارشاد کے عمل میں آگے آئیں ،بجائے اس کہ کہ وہ مال جمع کرنے میں لگے رہیں اور اپنے آپ کو شبھات و اقاویل کے خطرے میں ڈالیں۔
37- ہم دعوت دیتے ہیں کہ فلاحی اداروں کیلے مالی امداد دی جائیں۔جس کا مقصد اجتماعی اور ثقافتی پراجکٹس اور اسکیموں کو کور کرنا ہو۔اور اسی میں سے یہ مساجد ،مدارس دینی اور علمائے دین کی دیکھ بال کے اقدامات بھی ہوں۔ہاں مگر اس کے حساب کتاب اور شفاف طریقے سے خرچ کیلے تفصیل اور آڈت کا نظام بھی ہو۔
38- - ھم نماز جمعہ کو عین واجب ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔اور یہ ہر اس شخص پر واجب ہے جس میں شرائط پائی جائیں۔ اور ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں علمائے شیعہ کے اس اقدام کو جو انقلاب اسلامی کے بعد اٹھایا ایران عراق لبنان اور دوسرے ممالک میں۔ہم سب لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ اس کے پڑھنے کو عام کریں اور انتظام و دقت کریں اس کو لازم کرنے کیلے۔ہم نماز جمعہ کو ایک ایسا موقع و مناسبت عظیم سمجھتے ہیں جو کہ تقوی،معرفت الہی کی طرف رغبت دیتا ہے اور جمعہ ایسا مناسبت نہیں کہ جس میں ظالموں کیلے دعا کی جائے اور ان کے غلط اعمال کو Justify کریں۔
39- ﮬﻢ ﺍﺫﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧﮐﻮ ﺟﺴﮯ "ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺛﺎﻟﺜﮧ"ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮨﮯ:
ﺍﺷﮭﺪ ﺍﻥ ﻋﻠﯿﺎ ﻭﻟﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ
ﮨﻢﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻼۃﻣﻔﻮﺿﮧ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻣﻦ ﻻ یحضرہﺍﻟﻔﻘﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺦ صدوقﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺷﮩﺎﺩﺕﺛﺎﻟﺜﮧ ،ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺪﻋﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟﺗﻔﺮﻗﮧ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﮯ۔
40- - ہم تقیہ کرنے کو درست نہیں سمجھتے جیسا کہجو ایک مسخ صورت میں ہم دیکھتے ہیں۔ ھم جیسا کہ اس قول کی جو امام جعفر سے منقول ہے اس سے قبول نہیں کرتے:۔
: “التقية ديني ودين آبائي، ولا دين لمن لا تقية له”
اس کو ہم آئمہ پہ منسب جھوٹی حدیث سمجھتے ہیں۔اس کو عقلی اور تاریخی مبرر حاصل نہیں۔پس تقیہ بھلا کیسے دین کا ایک جزو بن سکتا ہے؟؟اور آئمہ کب تقیہ کرتے تھے؟اور وہ کن سے ڈرتے تھے؟؟اور ہم یہاں سمجھتے ہیں کہ ایسی احادیث موضوع یا بناوٹی ہیں۔ یہ اس قسم کی جعلی احادیث غااۃ نے گھڑی ہیں تاکہ وہ اپنی جھوٹے اور باطل نظریات کو اہل بیت کے نام سے پھیلا سکین،وہ اہل بیت کہ جنہوں نے ان غلاۃ سے اعلانیہ برات کا اعلان کیا۔۔۔۔۔۔!
اور ہم دعوت دیتے ہیں کہ فکر اہل بیت اور تراث اہل بیہت کو پڑھیں۔ان کے زندگی کے ظاہر کا مطالعہ کرین اور ان کے افعال و اقوال سے متعلق کسی قسم کے باطنی معاکس کو قبول نہ کریں،اور ہمارے اس زمانے میں کہ جب آزادی مکمل طور پر حاصل ہے اور ہر انسان کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے۔ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ تقیہ کا عھد گزر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شیعہ کے پاس کوئی عیب والی چیز نہیں کہ وہ اس کو چھپائیں یا دوسروں سے ڈریں۔اور نہ ہی کوئی ایسی چیز مانع ہے کہ وہ اپنے آراء کا اظہار کر سکیں۔خصوصا جب طاقتور شیعہ حکومتیں بن گئی ہیں اور وہ ایک آزاد ڈیموکریٹک ملک میں رہ رہے ہوں۔اس لئے اب وہ اپنے آراء کو آزادی و بہادری سے اور سچائی(نہ کہ تقیہ) کے سہارے اظہار کر سکتے ہیں۔اور ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جو کسی معین فکر کا انکار کرے لازما وہ تقیہ کر رہا ہو۔پس ہر شیعہ ان قدیم کتب میں وارد ہر بات کو من و عن نہیں مانتا،اور یہ علماء ہیں کہ جنہوں نے بہت سارے اسی ایسی باتوں کا رد کیا ہے اور برات ظاہر کیا ہے جو کچھ قدیم کتب شیعہ میں آیا ہے۔
41- ﮬﻢ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﻥﺩﻋﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻏﻼۃﺍﻭﺭ ﻣﺘﻄﺮﻓﯿﻦ ﮐﮯ ﺟﻌﻞﮐﺮﺩﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻋﻠﻤﺎﺀﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻨﻘﯿﯿﺢ ﻭ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ع ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ "ﺯﯾﺎﺭﺍﺕ"ﺟﯿﺴﮯ ﺯﯾﺎﺭﺕﺟﺎﻣﻌﮧ،ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻋﺎﺷﻮﺭﺍ،ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺴﺎﺀ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﺟﻮ ﮐﮧ اصحاب رسول ص کی ﻣﻮﺍﻗﻒ ﺳﻠﺒﯽ پر مشتمل ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺭﻭﺡ ﺍﻭﺭﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﮯﻣﻨﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ۔ﺟﻦ ﮐﻮ ﻏﻼۃ ﻧﮯ ﮔﮭﮍ ﮐﺮ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﻧﺴﺒﺖﺩﯼ ﮨﮯ ﺁﺋﻤﮧ ﺳﮯ۔
42-ﮬﻢ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﺁﺋﻤﮧﺟﺲ ﭘﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ مراسمﺍﻭﺭﻋﺎﺩﺍﺕﺩﺧﯿﻠﮧﮐﻮﮐﮭﮍﺍﮐﯿﺎﮔﯿﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥﻧﮩﯿﮟ ﻻﺗﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧﺯﯾﺎﺭﺕ ﻗﺒﻮﺭﺁﺋﻤﮧ،ﮔﺮﯾﺎﺍﻭﺭ ﺑﮑﺎﺀ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ عﭘﺮ، ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻨﮧ ﺯﻧﯽ ﮐﺮﻧﺎ۔ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮﺻﺎﺩﻕ ع ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
”: ﺃﻧﻬﻢ ﻣﻮﻗﻮﻓﻮﻥﻭﻣﺤﺎﺳﺒﻮﻥ ﻭﻣﺴﺌﻮﻟﻮﻥ"
43-ﮬﻢ ﺁﺋﻤﮧ ﺳﮯﺍﺳﺘﻐﺎﺛﮧ،ﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﻧﺎ،ﯾﺎﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯ ﻧﺬﺭ ﻭ ﻧﯿﺎﺯ ﺍﻥﺳﺐ ﮐﻮ ﺷﺮﮎ سمجھتے ﮨﯿﮟﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ۔ﺍﻭﺭﺗﻤﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺎﻡ ﺟﺎﮨﻞ ﻭﮦ ﺳﺒﺎﻁ ﻟﻮﮒ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺘﮯﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻡ شیعہ ﺯﯾﺎﺭﺕﻗﺒﻮﺭ ﺁﺋﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻋﺒﺮﺕ ﺣﺎﺻﻞﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯﺑﺨﺸﺶ ﻭ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮﺭﺍﮦ ﺧﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﻨﮯﮐﺎ ﻋﺰﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯﮨﯿﮟ
44-ہم اپنے بھائیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مراسم عاشورا میں حد سے زیادہ بڑھنے اور مراسم مبتدعہ سے بچیں۔جو کہ تشیع کا چہرہ دنیا کے سامنے مسخ کرتا ہے اور جس پہ عمل کرنے اللہ نے کوئی دلیل نازل نہین کی۔
45-ہم ان غلاۃ سے شدت سے بے زار ہیں جو اصحاب کساء یا پنجتن کے متعلق یہ سمجھتے ہیںکہ اس کائنات کو اللہ نے خلق کیا ان ذوات کیلے، اور اس نےمخلوق کو انکے لئے خلق کیا تاکہ وہ ان پر رحم کرے اور ان کو آزمائے-
46-ہم دعوت دیتے ہیں عدم تضحیم کی باہمی اختلافات جزئی کی جو کچھ تاریخ میں ہوا صحابہ کے بیچ میں جیسے جیسا کہ حضرت فاطمہ اور ابوبکر کے درمیان فدک کا واقعہ پیش آیا۔جسے ابوبکر نے عوام کا مال سمجھ کر واپس لیا جب کہ فاطمہ زہراء کہتی تھی کہ میرے والد نے مجھے دیا ہے۔تو یہ جزئی شخصی اختلافات ہیں اور ہم ان اختلافات کو حل اور دور کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
47- ہم جیسا کہ ہم دعوت دیتے ہیں اپنے بھاہیوں کو کہ وہ قصہ ہجوم بیت فاطمہ کو ترک کریں،اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت علی ع سے زبردستی بیعت لینے کیلے اور آپ کو ابوبکر کی بیعت پہ مجبور کرنے کیلے حضرت عمر نے حضرت فاطمہ ع کے گھر کو جلا دیا یا دھمکی دی۔یا آپ نے آگ لگائی تو دروازہ گر کرفاطمہ زہراء کچل دیا جس سے جنین میں موجود محسن کی سقط ہوئی۔اور فاطمۃ الزھرائ اسی سبب فوت ہو گئیں ،اس(فرضی) واقعہ کو ھر سال مرچ مسالہ ڈال کر لوگوں کو مشتعل کرنا،اور اقامہ مجالس عزاء اور سینہ کوبی اور اس کے ساتھ لعنت اور سب کرنا۔اور لوگوں کے جذبات کو ابھارنا جب کہ تاریخ سے یہ واقعہ ثابت ہی نہیں۔اور ایسا واقعہ کے ہونے کو عقل تسلیم نہیں کرتا۔اور ایسا کہنا کہ یہ واقعہ ہوا تو حضرت عمر سے پہلے خود علی ع کی شان میں اس قبیل کے (فرضی)واقعہ دراصل عمر سے زیادہ علی کی برائی ظاہر کرتا ہے۔
48-"ﮨﻢ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ کہ ﺍﻟﻠﮧ کے گھر یعنی ﻣﺴﺎﺟﺪ کو فرقوں کے ادارے کے طور پر ( کہ جس میں فرقہ کا رنگ نمایاں ھو) نہ چلایا جائے،ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ ﮐﮭﻮﻻ ﺟﺎﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ھم ﯾﮧ دعوت دیتے ھیں کہ شیعہ ﻭ سنی امام ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ مشترکہ نماز پڑھی جائے۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ کسی ﺍﺳﺘﺜﻨﺎﺀ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﻨﮓ ﻧﻈﺮ ﻓﺘﺎؤوں کا ﺳﺪ ﺑﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ مسلک یاﻓﺮﻗﮧ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔"
49- ہم دعوت دیتے ہیں تفرقہ اور secterian کو ختم کرنے کی ،مختلف فرقوںکے بیچ ازدواج(شادی) کے ذریعے۔اور ان فتاوں کے سد باب کی جو فرقوں کے درمیان ازدواج(شادی) حرام کہتے ہیں ان کے سد باب کی۔
50-اسی طرح ہم اپنے تمام برادران اہل سنت اور دیگر اسلامی فرقوں کو دعوت دیتے ہین کہ وہ وسعت نظری کو فروغ دیں اپنے شیعہ بھائیوں کے متعلق۔اور ان میں سے اکثر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔اور ان میں سے معتدل اور غلات کے درمیان فرق کرنا سیکھیں۔اور ان پر سابقین(پہلے زمانے کے) یا گزشتہ اور شاذ اقوال کی وجہ سے فتوی لگانے سے گریز کریں۔اور ان اقوال کے جدید دور میں وقوع ہونے پر نظر ثانی کرین۔اور ملاحظہ کریں فکری اور سیاسی تطورات کو جو کہ ان کے صفوں میں حاصل و تحصل ہوا۔اور اس کی تائید کہ انہوں نے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں ۔اور وہ بڑھ گئے ہیں اس راستے میں کہ وہ اپنے ممالک کو طاغوت اور سرکشوں اور استعمار سے آزاد کرنے میں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين،
اللہ سے ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے دین کی خدمت کی توفیق دے
اور مسلمانوں کو متحد کرے اور ان کو سربلندی عطا فرمائے طاغوت کے پنجوں سے آزادی دے کر۔. إنه سميع مجيب.
أحمد الكاتب
1 محرم الحرام 1430 ہجری بمطابق 29/12/2008
ترجمہ و ترتیب:بی ایم این بلتستانی
No comments:
Post a Comment