شبیہ سازی پر نامور شیعہ عالم 'مجتھد مرزا تنکابنی' وغیرہ کا فتوی یہ تھا کہ شبیہ سازی(شبیہ بنانا) حرام ھے، آیت اللہ میرزا تنکابنی جن کی پیدائش سن 1235 هجری هے،ملاحظہ کیجئے ان کی کتاب قصص العلما جہاں آپ لکھتے ھیں:
شبیہ سازی کرنا حرام ہے : علامہ میرزا محمد تنکابنی کا فتویٰ و تحقیق اور سابقہ علماء کی آراء
علامہ میرزا محمد تنکابنی صاحب قصص العلماء فرماتے ہیں
شبیہ سازی صفوی دور کی اختراع ہے اور چونکہ مذہب تشیع ایرانی علاقوں میں سلاطین صفوی نے بروز شمیشیر پھیلایا اور حضرت السید شھداءکے مصائب کے بیان کے لئے ذاکرین بلائے جاتے تھے اور لوگ گریہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ اس مذہب میں راسخ الاعتقاد نہیں تھے ، لہذا شبیہ سازی کی اختراع ہوئی کہ شائد امام حسین ع کے مصائب کی تصویر کشی سے ان کے دل بھر آئیں اور ان میں رقت قلب پیدا ہو۔ لفظ تعبیہ کے معنی اختراع ہی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ سابق ادوار میں اس شبیہ سازی کا وجود نہ تھا اور علماء اس کو جائز نہیں مانتے تھے بلکہ اکثر اس کو حرام قرار دیتے تھے اور حرام قرار دینے والوں میں سے جیلیل القدر فقیہ شیخ جعفر نجفی اور بعض نے توقف اختیار کیا ہے جیسے حجتہ الاسلام نے اپنی سوال و جواب کی کتاب میں اس مسئلہ پر خاموشی ظاھر کی ہے اور دوسرے بھی اس کے متعلق فتویٰ دینے میں توقف کرتے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ متوفقین یعنی توقف کرنے والے ، دراصل مانعین یعنی منع کرنے والے ہی ہیں ۔ فقہ میں سے شاذو نادر نے تعبیہ و شبیہ سازی کو تجویز کیا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ( علامہ میرزا محمد تنکابنی) تعبیہ و تشبیہ کو حرام قرار دیتا ہوں ، اس لئے کہ تعبیہ اگر ہے بھی تو سنت عبادت ہے اور اصل عبادات میں شارع مقدس کی طرف سے اس پر کوئی دلیل نہیں ملتی کیونکہ عبادت توقیفی اور لازمی ہے اور سب یہ تسلیم کرتے ہیں اور جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ، ان کے پاس سوائے سیرت صفوی کے کوئی دلیل نہیں ہے اور سیرت کو بالکل مسخ کر دیا گیا ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ رسول اللہ ع و آئمہ اھل بیت ع کے زمانے میں اس کا کوئی وجود نہ تھا ، اس لئے اس سیرت کی پیروی نہیں ہو سکتی ۔
قصص العلماء // علامہ محمد تنکابنی رح // ص 45
علامہ میرزا محمد تنکابنی صاحب قصص العلماء فرماتے ہیں
شبیہ سازی صفوی دور کی اختراع ہے اور چونکہ مذہب تشیع ایرانی علاقوں میں سلاطین صفوی نے بروز شمیشیر پھیلایا اور حضرت السید شھداءکے مصائب کے بیان کے لئے ذاکرین بلائے جاتے تھے اور لوگ گریہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ اس مذہب میں راسخ الاعتقاد نہیں تھے ، لہذا شبیہ سازی کی اختراع ہوئی کہ شائد امام حسین ع کے مصائب کی تصویر کشی سے ان کے دل بھر آئیں اور ان میں رقت قلب پیدا ہو۔ لفظ تعبیہ کے معنی اختراع ہی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ سابق ادوار میں اس شبیہ سازی کا وجود نہ تھا اور علماء اس کو جائز نہیں مانتے تھے بلکہ اکثر اس کو حرام قرار دیتے تھے اور حرام قرار دینے والوں میں سے جیلیل القدر فقیہ شیخ جعفر نجفی اور بعض نے توقف اختیار کیا ہے جیسے حجتہ الاسلام نے اپنی سوال و جواب کی کتاب میں اس مسئلہ پر خاموشی ظاھر کی ہے اور دوسرے بھی اس کے متعلق فتویٰ دینے میں توقف کرتے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ متوفقین یعنی توقف کرنے والے ، دراصل مانعین یعنی منع کرنے والے ہی ہیں ۔ فقہ میں سے شاذو نادر نے تعبیہ و شبیہ سازی کو تجویز کیا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ( علامہ میرزا محمد تنکابنی) تعبیہ و تشبیہ کو حرام قرار دیتا ہوں ، اس لئے کہ تعبیہ اگر ہے بھی تو سنت عبادت ہے اور اصل عبادات میں شارع مقدس کی طرف سے اس پر کوئی دلیل نہیں ملتی کیونکہ عبادت توقیفی اور لازمی ہے اور سب یہ تسلیم کرتے ہیں اور جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ، ان کے پاس سوائے سیرت صفوی کے کوئی دلیل نہیں ہے اور سیرت کو بالکل مسخ کر دیا گیا ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ رسول اللہ ع و آئمہ اھل بیت ع کے زمانے میں اس کا کوئی وجود نہ تھا ، اس لئے اس سیرت کی پیروی نہیں ہو سکتی ۔
قصص العلماء // علامہ محمد تنکابنی رح // ص 45
No comments:
Post a Comment