آیت اللہ سید ابو الفضل ابن رضا برقعی رضوی قمی کا روضه خوانی, مدح قصیدہ اور نوحہ سے متعلق اہم تحریر
.........,....................
وضاحت: اس تحریر سے بے شک اختلاف رکھیں,کیونکه اختلاف رائے آپ کا حق هے اور رائے دینا برقعی مرحوم جیسے مجتھد صاحب رائے کس حق, لیکن اختلاف دلایل کے ساتھ نه که سب و شتم اور غلاظت گوئی سے
.................................
"خدا لعنت کرے ایسے شخص پر که مدّاحی و تعریف و تمجید و اظهار ارادت و ...... کے نام پر ہر قسم کے خرافت اور هر ایک باطل کو مسلمین و پیروان قرآن میں رواج دیتے ہیں.معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام دین مدّاحی و نوحه خوانی غیرمنطقی کاموں کا دین نہیں اور رسول خدا(ص) سے اس قسم کے کاموں کی نهی فرمایا ہے. چنانچہ فرمایا:
«اُحثُوا في وُجوه المَدّاحينَ التُّراب»
« مدّاحان(تعریف کرنے والے) کے چہرے(منہ میں) پر خاک ڈالو »وسائل الشیعه، ج12، ص 132، حدیث اوّل.
اور نوحه خوانی کے بارے میں فرمایا:
«اَلنِّياحَةُ مِن عَمَلِ الجاهِليّة»
«نوحه خوانی [عهد] جاهلیت کے کاموں میں سے ہے»من لایحضره الفقیه، ج4 ص 376 ـ وسائل الشیعه، ج2، ص915
اور
«نَهي رسولُ الله (ص) عَنِ الرَّنَّةِ عِندَ المصيبة ونَهی عَنِ النِّياحَة و الإستماعِ إلَيها»
« رسول خدا(ص) سے به وقت مصيبت فریاد كرنے ،اور نوحه خواني سے اور اسے سننے سے نهی(منع) فرمایا»وسائل الشّیعه، ج2 ص 915 و ج12، ص 91 - مسند زید (ص 175) پر نیز حضرت علی(ع) سے مروی ہے که «نَهَی النَّبِیُّ (ص) عَنِ النَّوحِ» « پیامبر(ص) نے نوحه خوانی سے منع فرمایا».
اورجس وقت جناب جعفر بن أبیطالب ـ رضوانُ الله عليه ـ شہید ہوگئے تو حضرت فاطمه(ع) سے رسول اللہ نے فرمایا:
«لاتَدعی بِذُلٍّ و لاثُکلٍ ولاحزنٍ» « کسی کی موت پر اور جنگ میں کسی کی شہادت پر غم و واویلا نہ کرنا ۔۔۔//۔۔واذلّاه و واويلاه و واحزناه مت کہو//» وسائل الشیعه، ج2 ص 915 و ج12، ص 91
اور «إنَّ رسولَ الله(ص) قال لِفاطمةَ(ع) اذا أنَا مِتُّ فَلاتَخمِشی عَلَیَّ وَجهاً و لاتَرخي عَلَیَّ شَعراً و لاتُنادِي بِالوَيل و لاتُقيمنّ عَلَيّ نائِحَةً»
«رسول خدا(ص) نے حضرت فاطمه(ع) سے فرمایا کہ بیٹی!جب میں انتقال کر جاؤں تو اس وقت تم میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا اور اپنے بال نہ کھولنا اور واویلا نہ کرنا(مجھ پر نوحہ نہ کرنا) اور نوحہ کرنے والیوں کو نہ بلانا۔»وسائل الشیعه، ج2، ص 916 –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ:جلاء العیون جلد اول صفحہ 66 پر رسول خدا نے سیدہ النساء کو جو وصیت کی تھی وہ یہ ہے:
"اے فاطمہ واضح ہو کہ پیغمبر کیلے گریباں چاک نہ کرنا چاہیے۔اور بال نہ نوچنے چاہیں۔اور واویلا نہ کرنا لیکن وہ کہنا جو تیرے باپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کے مرنے پر کہا کہ 'آنکھیں روتی ہیں اور دل غمگین ہے' اور میں نہیں کہتا کہ جو موجب غضب پروردگار ہو اور اے ابراہیم میں تجھ پر اندوہناک ہوں۔
اور مزید یہ بھی آتا ہے:
"پس تم لوگ فوج در فوج گھر میں آنا اور مجھ پر صلوۃ بھیجنا اور سلام کہنا،اور مجھ کو نالہ و فریاد اور گریہ و زاری سے آزار نہ دینا(یعنی یہ کام نہ کرنا)"۔
(جلاء العیون جلد اول صفحہ 77)
اور اس کے علاوہ حضرت علی ع نے فاطمۃ الزھراء سے جعفر بن ابی طالب کے موت پر کہا:
لا تدعی بویل ولا تکل ولا تحزن ولا حرب وما قلت فیہ فقد صدقت۔
کسی کی موت پر اور کسی کے دوران جنگ شہید ہوجانے پر غم کھاتے ہوئے واویلا کے ساتھ ماتم نہ کرنا اور جو کچھ اس کے بارے میں میں نے کہا ہے وہ سچ ہے۔
اس کے علاوہ حضرت خدیضہ ع کو بھی رسول اللہ نے صبر کی تلقین کی کہ بس آنکھیں اشک بار ہیں اور دل غمگین ہے' اور میں نہیں کہتا کہ جو موجب غضب پروردگار ہو اور اے ابراہیم میں تجھ پر اندوہناک ہوں۔،،،!
اس کے علاوہ امیرالمومنین ع نے نہج البلاغہ میں رسول اللہ کی وفات کو سب سے بڑی مصیبت قرار دیا لیکن اس پر بھی جزع و فزع نہیں کیا کیونکہ رسول ص نے منع فرمایا تھا۔
اور سیدہ نساء اہل الجنہ،فاطمۃ بنت محمد ص کی وفات پر بھی علی ع اشک بار تھے لیکن غیر شرعی کاموں سے پر ہیز کیا۔
اللہ ہمیں ان بزرگوار دین کے سچے محافظین کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔والسلام علی من اتبع الھدی
(ایڈمن)
----------------------------------------------------------------------------
حضرت سیّد الشهداء(ع) نے نیز اپنے نانا کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے حضرت زنیب سے فرمایا:
«يا اُخَيَّة اِنيّ اَقسَمتُ عَلَيكِ فَاَبِرّى قَسَمي لاتَشِقّی عَلَيَّ جَيباً وَ لاتَخمِشي عَلَيَّ وَجهاً و لاتَدعى عَلَيَّ بِالوَيل و الثُّبُور اذا أنَا هَلَكتُ»
«پیاری بہن!میں تجھے قسم دلاتا ہوں ۔میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا۔میرے مرنے پر اپنا گریباں نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرے کو نہ خراشنا اور نہ ہی (ہائے)ہلاکت و (ہائے) بربادی کے الفاظ نہ بولنا » (الارشاد، شیخ مفید، ج2، ص97).
اور فرمایا:
«لَعَنَ اللهُ الخامِشَةَ وَجهَها و الشّاقَّةَ جَيبَها وَ الدّاعِيَةَ بِالوَيلِ و الثُّبور»
«خدا لعنت کرے اس عورت پر جو که [ بوقت مصیبت] چهرة کو نوچے اور گریبان پھاڑے اور فریاد و فغان(ہائے ہلاکت اور ہائے بربادی کے الفاظ بولے )کرے »مسکّن الفواد، زین الدین العاملی، ص 108 – مستدرک الوسائل، ج1، ص144
اور «لَيسَ مِنّا مَن حَلَقَ و لا مَن سَلَقَ و لا مَن خَرَقَ و لا مَن دعا بِالوَيلِ و الثُّبور»
«از ما نیست آنکه موی خویش بکند (یا بتراشد) و صدای خود را بلند کند و گریبان بدرَد و فریاد وفغانِ واویلاه و واثبورا کہے ».مسند الامام زید، ص 175 ـ اس حدیث کو شهید ثانی نے اس طرح بیان کیا: «لَيسَ مِنّا مَن ضَرَبَ الخُدودَ وَ شَقَّ الجُيوب» «وہ ہم میں سے نہیں جو بوقت مصیبت گالوں پر مارے اور گریباں پھاڑے». (مسکّن الفؤاد، ص 108).
اور فرمایا «اِنّما نُهِيتُ عَنِ النَّوحِ عَن صَوتَينِ أحمَقَينِ فاجِرَين صَوتٍ عِندَ نغم لَعِبٍ و لَهوٍ و مَزامير شيطانٍ و صَوتٍ عِندَ مُصيبَةٍ خَمشِ وُجوهٍ وَ شَقِّ حُيُوبٍ و رَنَّةِ شيطانٍ»
« مجھے منع کیا گیا ہے نوحه خوانی سے ، دو أحمق فاجر آوازوں سے جن میں سے ایک به وقت لَهو و لعب و مزمارهای شیطانی کی آواز ہے اور دوسری آوازو به وقت مصیبت چہرہ یا منہ نوچنا و گریباں پھاڑنا اور شیطانی فریادیں کرنا»مستدرك الوسائل ج1، ص 144 و 145
اور فرمایا :«أربَعٌ فی أمَّتی مِن أمرِ الجاهليّة لايَترُکونَهُنَّ : الفَخرُ فی الأحسابِ و الطَّعنُ فی الأنساب و الإستسقاءُ بِالنّجوم و النِّياحَةُ»
«چهار چیزیں جو کہ امور جاهلیّت میں سے ہیں میری امت ترک نہیں کریں گے: حسب و نسب پر فخر کرنا، طعنه کرنا نسب میں ،اور ستاروں سے بارش طلب کرنا اور نوحه خوانی »المصنّف، ج3، ص 559 ـ وسائل الشیعه، ج12 ص91 و مستدرک الوسائل، ج1 ص 143
پیامبر(ص) نے بوقت شهادت جناب حمزه(ع) جو آپ کے چچا تھے لوگوں کو نوحه خوانی منع فرمایا»المصنّف، ج،3 ص، 561 .
اور فرمایا: «صَوتانِ ملعونان يَبغُضُهُمَا اللهُ: اعوالٌ عِندَ مُصيبةٍ و صوتٌ عند نغمةٍ يَعنی النَّوحَ و الغَناءَ» «دو آوازیں مورد و موجب لعنت ہیں جنہیں خدا پسند نہیں کرتا، ناله و فریاد کرنا بوقت مصیبت اور غناکی آواز کی آواز یعنی نوحه خوانی اور آواز غنا کی آواز»مستدرک الوسائل، ج1، ص 144
و اسی طرح فرمایاد: «ضَربُ المُسلِمِ بِيَدِهِ عَلی فَخِذِهِ عِندَ المُصيبَةِ إحباطٌ لِأجرِه» «هنگام مصیبت کے وقت کوئی مسلمان اپنے رانِ پر ہاتھ پیٹے ، اس کا اجر ضائع ہوجاتا ہے»فروع کافی، ج1 ص 224 ـ چنانچہ أمیرالمؤمین نے نیز فرمایا : «مَن ضَرَبَ يَدَهُ عَلی فَخِذِهِ عِندَ مُصيبَتِهِ حَبِطَ أجرُهُ (عَمَلُهُ) = جس نے بوقت مصیبت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے ۔تو اس کے اعمال(اجر) ضائع ہوگئے» (نهج البلاغه، حکمت 144)
اسی لئے حضرت باقر(ع) نے فرمایا:
«أشَدُّ الجَزَعِ الصُّراخُ بِالوَيل وَ العَويل و لَطمُ الوَجه و الصَّدر وَ جَزُّ ا لشَّعرِ عَنِ النَّواصی و مَن أقامَ النّواحَةَ فَقَد تَرَكَ الصَّبرَ و أخَذَ في غَيرِطريقِه»
« انتہائے جزع ویل عویل کی پکار کرنا ہے،اور منہ پر طمانچہ مارنا ہے،سینہ زنی کرنا اور بال نوچنا اور جس نے نوحہ خوانی و ماتم کیا اس نے صبر کو چھوڑ دیا اور غیر شرعی کام کیا۔».فروع کافی، ج1، ص 222
والسلام علی من اتبع الھدی
از خادم شریعت مطھرہ آیت الله سید ابوالفضل ابن الرضا برقعی قمی
No comments:
Post a Comment