Sunday, 18 October 2015

ڈاکٹر سید علی اصغر غروی موسوی کا ایک مقاله جن کی وجه سے ان کو جیل میں ڈال دیا

ایک عالم اسکالر جس کو یه مقاله لکھنے کے سبب نه صرف جیل جانا پڑا بلکه اس کے خلاف مجتھدوں نے فتوی انحراف بھی جاری کیا.
..........................



امام ایک سیاسی لیڈر یا مذہبی راہ نما

عرض ناشر

جناب ڈاکٹر سید  علی اصغر غروی کا تعلق دور حاضر کے نامور شیعہ اسکالرز اور فلاسفرز میں ہوتا ہے۔آپ جناب آیت اللہ جواد غروی  کے فرزند ارجمند ہیں۔اپنے والد محترم کی طرح آپ بھی ایک محقق اور اصلاح پسند عالم ہیں۔جس طرح آیت اللہ غروی نے مختلف  مسائل میں افراط و تفریط سے بچ کر معتدل مسلک اپنایا ہے،ڈاکٹر سید اصغر  غروی بھی اپنے والد کی اسی مشن پر کاربند ہیں۔
       جناب ڈاکٹر سید علی اصغر غروی نے امامت اور خلافت سے متعلق ایک اہم مقالہ ایک مشہور ایرانی روزنامہ "بہار" میں شایع کیا  تھا جس ک ا عنوان"امام پیشوا سیاسی یا الگوی دینی" رکھا تھا۔چنانچہ یہ  زیر نظر کتابچہ اسی مقالہ کا اردو ترجمہ ہے،جو کہ تحقیق و جستجو میں گہری دلچسپی رکھنے والے مسلمانوں کیلے ایک نایاب تحفہ ہے۔
    

غدیر خم کا واقعہ کی تفسیر شیعہ و سنی کے درمیان اسلام میں لیڈرشپ سے متعلق (کئی صدیوں سے)ایک اہم بحث و مختلف آرا کا سبب بنا ہوا ہے۔دونوں مسالک کے درمیان اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ   ﷺنے کیا فرمایا اور اس کے کیا معنی ہیں؟۔اہل سنت علماء رسول کے اس خطبہ  کو صرف رسول ﷺ  اور ان کے قریبی ساتھی علی ابن ابی طالب کے درمیان ایک"دوستی کا اعلان" قرار دیتے ہیں جب کہ اہل تشیع علماء اس کو  ایک ایسا موقع و مقام قرار دیتے ہیں کہ جہاں رسول اللہ  ﷺ نے تمام مسلمانوں کے سامنے واضح الفاظ میں خود   اپنے ہاتھوں خلافت علی کو دی (خلافت علی بید النبی) کہ  یہ علی کا حق ہے ۔
      آج ایران میں علماء کے حامی اور اقتدار میں موجود علماء غدیر خم کی تفسیر کو اسلامی حکومت(ملائیت) کے حق میں اور جمہوریت کی مذمت کرنے کیلے استعمال کر رہے 
ہیں۔ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ محمدﷺ  آخری نبی ہیں۔

آج 1400 ان کی وفات کو سال ہوئے ہیں ،ان کی عدم 
موجودگی کی وجہ سے ہمیں دشواریوں اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ان کے لبوں کاہمیشہ کیلے  بند ہونے(موت) کا مطلب ہم انسانوں کیلے براہ راست  آسمانی وحی کا ختم ہونا ہے۔بے شک اللہ اپنے بندوں کی صراط مستقیم کی طرف  مسلسل اور  کسی وقفے کے بغیرراہنمائی کرتا ہے۔ لیکن ہمارے وجود کی حقیقت اور انسانوں کی سعادت سے متعلق براہ راست وحی  کےاس دور کا(نبی ﷺ کی وفات کی وجہ سے) اب خاتمہ ہوا۔اب رسول  ﷺکے آخری کلمات سے متعلق  ماگنی چوڈ واضح ہیں۔اس کی روشنی میں آپ  ﷺ کا غدیر خم پر آخری خطبے کو بہت سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا  چاہیے۔اس لیے کہ یہ خطبہ صدیوں سے ایک اہم موضوع بحث  ہے اور مختلف نقطہ ہائے نظر کی یہ بنیاد ہے۔یہ مضمون بھی اسی طرح کا ایک جائزہ اور نقطہ نظر ہے۔

قرآن مجید کا ایک بنیادی سبق (مرکزی خیال) یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے رسول ﷺ  اور ان کے پیروکاروں سے کہتا ہے کہ وہ امامت و پیشوائی(راہبری) اور امت(قوم) کو  تشکیل دے۔ایک امت ایک قوم ہے جو کہ زندگی کے معنی سے متعلق ایک ہی رائے رکھتے ہوں ،اور وہ ایک  ہی امام یا لیڈر کی پیروی کریں۔قرآن کے مطابق حضرت ابراہیم وہ پہلے شخص ہیں جنہون نے  برملا توحید کا اعلان کیا اور ایک  امت انہون نے تشکیل دی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے  لوگوں کاایک ایسا گروہ(ملت) جمع کیا ،جن کا دنیا  دنیا سے متعلق نظریہ ہم آہنگ تھا۔ابراہیم کی امت کے لوگ اپنی دنیوی خوبیوں اور ملت کے لحاظ  سے اور  اپنے اقدار،سلوک اور مقاصد کے لحاظ سےایک متحد اور یکجا گروہ کے ساتھی تھے۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
"      اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے آزمایا چند کلمات کے ساتھ،پس جب پورا کیا ان کو،کہا،تحقیق میں تمہیں لوگون کے واسطے امام بنانے والا ہوں،کہا  میری اولاد میں سے بھی،اللہ نے کہا  نہیں پہنچے گا میرا عہد  ظالموں کو "سورہ بقرہ آیت 134۔
اللہ نے ابراہیم کو منتخب کیا ،اس لیے کہ انہوں نے اپنے کلمات کو عملی جامہ پہنایا،اور اللہ نے فرمایا:
"میں تمہیں ان کا امام بناؤں گا"۔
ہم اس آیت کے متن سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کلمات ظاہر کرنے کے بعد معاشرے کی راہنمائی کیلے جن چیزون کی ضرورت تھی اللہ کی طرف سے ابراہیم  ؑکو   وہ عطا کیے ،اس کے بعد وہ لوگون میں بطور امام اپنا فرض ادا کرنے لگے۔ 
         ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ  اللہ تعالی  نے ابراہیم کو جو لیڈشپ(امامت) عطا کی، کیا وہ امامت  ملک کی سیاسی راہنمائی(پولیٹیکل لیڈرشپ) کیلے دی تھی؟
     اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہم   قرآن کی اس   آیت کا حوالہ دیتے ہیں جس سے  متعلق مختلف شیعہ علماء کی رائے یہ ہے کہ غدیر خم کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی،جس     میں  یہ بات  واضح تھی کہ علی ہی آپ کے بعد خلیفہ یا جانشین ہوں گے۔
   "الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔"سورہ 5،آیت 3۔
                  کیا قرآن کی اس آیت کی یہ تفسیر قابل قبول ہے؟ذیل میں ہم اس سوال کا جواب  دینے کیلے مختلف زاویوں سے تحقیق کرتے ہیں :
1-اس آیت سے پہلے اور اس کے بعد والی آیات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نے رسول  ﷺ کی ذمہ داری(فرض) یہ لگائی کہآپ لوگوں تک  مکمل اور صحیح انداز میں وحی پہنچا دیں۔اور آپ ﷺ  کو کسی دھمکی  کی وجہ سے اپنے مقصد(مشن) سے باز نہیں آنا چاہیے،آپ کو کافرون کی سرکشی یا بغاوت کی وجہ سے پریشان یا  غم زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ "مکمل طرفداری(فیور) اور نعمت" جس کا ذکر اللہ کی طف سے نازل کردہ اس آیت میں   ہوا ہے اس سے مراد قرآن ہے۔اور اس قرآن کی مکمل سمجھ اور فہم یعنی اسلام۔جب لوگوں تک  وحی (قرآن و اسلام) بغیر کسی تحریف اور نقسان کے پہنچا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعمت مکمل ہو گیا۔
2-اگر یہ صحیح ہے کہ "اے رسول پہنچا دے جو کچھ اتارا گیا ہے تیری طرف  تیرے پروردگار کی طرف سے ،اگر تو نے ایسا نہیں کیا تو تو نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔اور اللہ تجھ کو لوگوں سے بچا دے گا۔تحقیق اللہ ہدایت نہیں کرتا کافر قوم کو "سورہ 5،آیت 67-
      اس کا مطلب  اگرحضرت کی جان نشینی یا خلافت ہے،تو اوپر کی آیت ("الیوم اکملت۔۔۔)کو فورا اس آیت کے بعد نازل ہونا چاہےتھا،کیونکہ اللہ دانا(بصیر) ہے اور  کوئی تاخیر اس آیت کے بعد نہیں ہونی چاہیے تھی(یعنی ان آیات کومربوط ہونا چاہے تھا)۔
3-عام طور پر قرآن  کی وہ آیات جو کہ اہم منصب عطا کرنے سے متعلق ہوں ان کو واضح اور خاص ہونا چاہیے،جو واضح منطق(ریزن) پر مشتمل ہو۔بصورت دیگر یہ عبارت کو غیر مربوط ہونے کا سبب بنتا ہے۔اگر ہم اس آیت کو کسی سیاسی تقرری سے مساوی قرار دیں ،تو یہ دوسری آیت سے غیر مربوط ہے،جہاں رسول  ﷺ سے کہا گیا ہے کہ لوگوں کے کام  اور  معاملات میں ان سے مشورہ کیا جائے۔"اور ان سے  مصلحت(مشورہ)کر امور(کاموں) میں"سورہ 3 آیت 159۔  اور  "اور وہ لوگ کہ قبول کیا انہوں نے اپنے پروردگار کیلے اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے درمیان کام مشاورت(مشورہ) سے ہوتے ہیں  اور جو  چیز ہم نے ان کو دی ہے اس مین سے خرچ کرتے ہیں"سورہ 42: آیت 38۔
4-امام علی  نہج البلاغہ کے خطبات  میں بار بار اس نکتہ کو دہراتے ہیں کہ سیاسی نظم و نسق لوگوں کے بیعت اور ان کی رائے  سے منخب کیا جائے۔امام علی نے معاویہ کو لکھا(جیسا کہ نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 6 مین ہے):
  میری بیعت کی انہی لوگوں نے جنہوں نے بیعت کی ابوبکر و عمر و عثمان کی، اسی اصول کی بنیاد پر جس پر ان کی بیعت کی تھی۔ لہذا اس اصول کے لحاظ سے موقع پر موجود رہنے والے کو دوبارہ نظرِ ثانی کا حق نہ تھا اور نہ ایسے شخص کو جو موجود نہ تھا اس فیصلہ کے مسترد کرنے کا حق پیدا ہو سکتا ہے اور شوریٰ مہاجرین و انصار کے ساتھ مخصوص ہے۔،،،،،،،۔
  "۔
    علی کے یہ الفاظ  بے شک یہ ظاہر کرتا ہے کہ خلافت  کوئی ایسی چیز نہیں  کہ  اس خلیفہ کو اللہ کی طرف سے انتصاب(اپوائنمنٹ) ہو بلکہ رسول اللہ کا سیاسی جانشین یا خلیفہ لوگ ہی منتخب کریں گے۔
 5-امام علی نے  کبھی خلافت و حکمرانی سے متعلق یہ دعوی نہیں کیا کہ  رسول اللہ نے ان کیلے اس خدائی حق کا اعلان کیا ہو۔یہاں تک کہ جہاں کہیں وہ اپنا حق خلافت طاہر کرتا ہے،تو اس منصب کیلے اپنی صلاحیت کو بنیاد بناتا ہے،اور  لوگوں کو" آگاہ" کرتا ہے کہ ان  کیلے ایک حق انتخاب ہے۔علی کے تمام خطبات جو نہج البلاغہ میں بیان ہوئے ہیں ان میں  انتخاب اور آگاہی سے متعلق ہے۔یہ اتنا واضح ہے کہ علی کی نظر میں حکمرانی(گورنمنٹ) کیا ہے۔ہم مزید اس بات کو 25 سال کے اس  سیاسی  ابتری کےعرصہ میں  اور پانچ سالہ  ایک سیاسی لیڈر کے طور پر   دیکھ سکتے ہین اگر ہم آپ کے کردار اور الفاظ پر غور کرتے ہیں۔
 6-جیسا کہ یہ بہت سی تاریخی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی ہے کہ تینوں خلفاء ،خاص طور پر ابو بکر و عمر کے  ساتھ ، علی کا  رویہ  یہ واضح کرتا ہے کہ علی نے ان لوگوں کے ساتھ کبھی ایسا سلوک نہیں کیا کہ انہوں(خلفاء)  نے رسول اللہ کے باتوں کا لحاظ نہیں کیا اور حکومت غصب کر لیا۔ آپ کا خلفاء کے ساتھ شاندار تعاون  جس کا ذکر آپ نے بار بار کیا ہے، یہ ایسی ہمدردی  کو  ظاہر کرتا ہےجس کے بارے میں  کسی شک  و شبہ کی گنجائش نہیں۔
 مثلا کتاب الغارات جس کے مصنف ثقفی ایک شیعہ عالم ہیں،اس میں امام علی سے ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں:
"جب محمد ص نے اپنا فرض ادا کیا،تو اللہ تعالی نے آپ کو دنیا فانی سے اپنی طرف ابدی دنیا  میں  بلا لیا،پھر آپ کے بعد مسلمانوں نے ایسے لوگوں کی جانیشی اختیار کی ،جو کہ شائستہ امیر تھے،اور ان امیروں نے قرآن و سنت کے مطابق عمل کیا۔اور انہوں نے اپنے معاملات کو درستی سے ادا کیا،اور کبھی بھی  رسول اللہ کی سنت و احادیث سے تجاوز نہیں کیا۔پھر اللہ نے ان  کو فوت کیا،اللہ کی رحمت ہو ان دونوں پر"۔
7- اگر امام علی کو اس بات پر ایمان و  یقین ہوتا کہ اللہ نے ان کو رسول اللہ کے بعد خلافت دی ہے،تو ہم   اس بات کو ان کے  شجاعت و بہادری،ہمت و شہامت اور عدالت و انصاف سے متعلق   شہرت کے منافی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا شمشیر نیام سے  نکال کر خدا تعالی کے احکام کو نافذ نہیں کیا۔کیا یہ بات ایسے شخص سے متعلق    نادرست نہیں کہ جو دروازہ علم و حکمت  ہے کہ وہ اپنا دفاع کرنے سے ہچکچائے۔
8-  اگر ہم  اما م علی کے ان خدشات پر  جو انہون نے حکومت یا گورنمنٹ سے متعلق  ایک تبصرہ کے طور پرظاہر کیے وہ بھی بہت سی تاریخی کتب اور نھج البلاغہ مین بھی موجود ہے۔یہ طاہر کرتا ہے کہ آپ کے اعتراضات  جو آپ نے فرمائے وہ صرف حکمرانی کے انتخاب کو محدود کرنے پر  احتجاج تھا-آپ اس بات پر فکرمند تھے کہ خلیفہ یا کوئی شخص  اپنے اختیارات یا حد سے تجاوز کرے گا۔جیسا کہ آپ کو پسند نہیں تھا کہ ایک خلیفہ  خود مقرر کرے ،یا ایسا انداز اختیار کرے کہ مخصوص آدمی منتخب ہو۔علی کا احتجاج اس قسم کے سازشوں کے خلاف تھا۔یہ بالکل اسی طرح ہے جسے ہم آج کل ایران میں  مینیجڈ الیکشن کے نام سے دیکھتے ہیں۔
  آپ اس بات پر احتجاج نہیں کرتے تھے کہ سقیفہ والوں نے  آپ کو منتخب نہیں کیا بلکہ آپ کا احتجاج  انتخاب کو محدود لوگوں تک خاص کرنے پر تھا۔اور ان شرائط کے خلاف جو خلیفہ منتخب ہونے کیلے رکھے گئے۔تاکہ آپ لوگوں کا امیدوار نہ بن سکیں۔ہم علی کے الفاظ سے واضح طور پر یہ جان سکتے ہیں کہ  آپ کا احتجاج لوگوں کو رائے دینے سے متعلق محدود آزادی دینے کے  خلاف تھا۔
       اوپر کے 8 نکات مختصرا بیان کئے گئے ہیں۔لیکن یہ طاہر ہوتا ہے کہ اتمام نعمت  سے مراد اس آیت میں حکومت(خلافت) یا دنیوی پیشوائی نہیں بلکہ رسول اللہ پر وحی کی مکمل ہونے  اور بعثت و نزول قرآن کے مکمل ہونے  اور بغیر کسی کم و کاست کے قرآن اور وحی کا لوگوں تک پہنچنا مراد ہے۔یہ کامل اور تمام قرآن لوگوں کیلے  امام اور امت مسلمہ کیلے پیشوا اور راہنما ہے۔ یہی ایک جیسی چیز ابراہیم کیلے مکمل کیا گیا۔ابراہیم بھی لوگوں کیلے امام اور اسوہ ملت بنے کیونکہ اس پر نعمتیں پوری ہوئیں۔مسلمانوں پر نعمت مکمل اس طرح ہوئی کہ انہوں نے رسول اللہ کی بعثت اور قرآن کو مکمل حاصل کرلیا۔اس لیئ ان کو اس پر لازمی طور پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔رسول اللہ کا اسوہ حسنہ اور قرآن مجید  پر عمل کر کے فکر اور عمل میں دوسرے اقوام کیلے ایک ماڈل بن گئے۔
امام علی نے پوری کوشش کی کہ قرآن اور اس کے اصولوں پر عمل پیرا ہو۔شیک محمد عبدہ ،جب علی کے خیالات اور ان کے اخلاق  سے متعلق ایک عملی نمونہ قرار دیا۔ہماری بدقسمتی ہے،کہ ایک روایت جو کہ امام علی سے بیان کی جاتی ہے وہ اس طرح ہے:
"میرے شیعہ قرآن کو امام تصور کرنے کی بجائے اپنے آپ کو کتاب(قرآن) کا امام  سمجھتے ہیں"۔
       علی کی خواہش کے برعکس وہ(شیعہ) جہالت کے غلام بن گئے ،اور اس کے حقوق کو روندا،وہ اس لئے چیختے ہیں کہ دنیا کی چند دنوں کی  گورنمنٹ میں کوئی پوزیشن حاصل کر سکیں۔وہ عہدہ(حکومت) کہ جس سے متعلق علی کا ارشاد ہے کہ "ایک بکری کی چھینک"ہے۔!کیا بکری کی چھینک سے کم قدر و قیمت والی چیز(خلافت) اللہ  کی عظیم نعمت ہو سکتی ہے؟؟کیا یہ خلافت اللہ کی نعمتوں کا اتمام اور اس (اللہ کے) مذہب کا مکمل ہونا قرار دیا جا سکتا ہے۔؟؟
  امام علی نے ہمیں ایسے دنوں سے ڈرایا ہے کہ جب

"وَ اِنَّہُ سَیَأتِی عَلَیکُمْ مِن بَعدِی زَمَانٌ لَیسَ فِیہِ شَیءٌ أَخْفَیٰ مِنَ الْحَقِّ وَ لا أَظْہَرَ مِنَ الْبَاطِلِ وَ لااَکْثَرَ مِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ وَ لَیسَ عِندَ أَہلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَۃٌ اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِہِ وَ لا أَنفَقَ مِنہُ اِذَا حُرِّفَ عَن مَوَاضِعِہِ وَ لا فِی الْبِلادِ شَیءٌ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعرُوفِ وَ لا أَعرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ فَقَد نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُہُ وَ تَنَاسَاہُ حَفَظَتُہُ فَالْکِتَابُ یَومَئِذٍ وَ اَہْلُہُ طَرِیدَانِ مَنفِیَّانِ وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِی طَرِیقٍ وَاحِد ٍ لا یُؤوِیہِمَا مُؤوٍ فَالْکِتَابُ وَ اَہْلُہُ فِی ذَالِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیہِم وَ مَعَہُمْ وَ لَیْسَا مَعَہُمْ لِاَنَّ الضَّلالَۃَ لاتُوَافِقُ الْہُدَیٰ وَ اِنِ اجْتَمَعَا فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلٰی الْفُرْقَۃِ وَافْتَرَقُوْا عَلیٰ الْجَمَاعَۃِ کَأَنَّہُم أَئِمَّۃُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ إِمَامَہُمْ''١؎
یقینا میرے بعد تمھارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ نمایاں نہ ہوگی، سب سے زیادہ رواج خدا اور رسول (ص) پر افتراء کا ہوگا اور اس زمانے والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس سے زیادہ کوئی فائدہ مند بضاعت نہ ہوگی اگر اس کے مفاہیم کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے، شہروں میں ''منکَر'' سے زیادہ معروف اور ''معروف'' سے زیادہ منکَرکچھ نہ ہوگا، حاملان کتاب کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن قرآن کو بھلادیں گے، کتاب اور اس کے واقعی اہل، شہر بدر کردیئے جائیں گے اور دونوں ایک ہی راستہ پر اس طرح چلیں گے کہ کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا، کتاب اور اہل کتاب اس دور میں لوگوں کے درمیان رہیں گے لیکن واقعاً نہ رہیں گے، انھیں کے ساتھ رہیں گے لیکن حقیقتاً الگ رہیں گے، اس لئے کہ گمراہی، ہدایت کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے چاہے دونوں ایک ہی مقام پر رہیں، لوگوں نے افتراق پر اتحاد اوراتحاد پر افتراق کرلیا ہے جیسے یہی قرآن کے امام اور پیشوا ہیں اور قرآن ان کا امام و پیشوا نہیں ہے''۔
.
    اس بات کا یقین نہیں آتا کہ  کس طرح علی کے شیعوں نے اس کے خطبات کو فراموش کر دیا،جو کہ ایک ذریعہ ہے  قرآن کو مضبوطی سے تھامنے   و فکر کر کے اسے سمجھے  کا،اور بجائے اس کے کہ قرآن میں غورا ور اس پر عمل کیا جائے، اور اٰس کے اصولوں کو اپنایا جائے،انہوں نے اپنے غلط اور نامکمل  تفسیر  اور تشریح  کیلے علی کا نام استعمال کرتے ہیں،اور اس کو افسانوں اور قصوں کے ساتھ خلط ملط کر کے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلاتے ہیں۔اور  علی سے محبت کے نام پر ایک عظیم نا انصافی  کے مرتکب ہیں۔وہ جو خدا کے راستے پر تھے اور انسانیت کیلے ایک ہیرے کی مانند ہے۔امام علی سے مشابہت کے بغیر وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں۔اور ان کی شفاعت کے منتظر ہیں کہ روز قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے۔بے شک یہ کوئی نئی  بات نہیں۔کچھ ہی لوگ تھے جو ان کی زندگی  میں ان کے کردار اور طریقہ زندگی پر عمل کرتے ے تھے۔ہم علی کے خطبات و مکتوبات سے سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے خلافت کے دورمیں کہ جب وہ حکمران بنے اور بیعت کے بعد۔ان کو معلوم ہوا کہ لوگ اصل انصاف کو نافذ کرنے کو پسند نہیں کریں گے۔اس لیے آپ نے اپنے ان شیعوں کی شکایت کی جو کہ علی کا نام تو پسند کرتے ہیں لیکن ان کے کردار کی پیروی کو پسند نہیں  کرتے۔کون توقع کر سکتا تھا کہ علی کے الفاظ و کلمات کو استعمال کیا جائے گا صرف فائدہ اور سیاسی طاقت اور پاور حاصل کرنے کیلے؟کس طرح علی کے رویہ کو حکومت سنبھالنے اور فوائد حاصل کرنے کیلے  استعمال کریں گے،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب آپ خلیفہ تھے،آپ جانتے تھے کہ خوارج نے ہی ابن ملجم کو آپ کو قتل کرنے کیلے بھیجا ہے لیکن علی نے پہلے سے حفظ ما تقدم کے طور پر ملزم کو سزا دینے اور قبل ارتکاب جرم سزا نہیں دیا۔
علی امام ہے،علیہ الصلوۃ والسلام،اور ان کا اہم کردار امام ہونا ہے،اور یہ کردار ہر دور کے لیڈر کیلے ایک مثالی نمونہ ہے۔ان کو صرف ایک سیاسی حکمران کی حد تک محدود نہیں کیا جانا چاہیے کچھ لوگوں کیلے اور کچھ دنوں کیلے بلکہایک کم مدت مسلمان ہونے کی حیثیت سے علی ایک مثال اور نمونہ ہے پوری انسانیت کیلے۔یہ ایک بڑے لیڈرشپ کا مینٹل ہے۔،۔ان کے اصل کردار کے سامنے خلافت ایک بے وقعت چیز ہے۔تاریخ کے تمام ادوار کے حکمرانوں کیلے علی ایک مثال اور نمونہ تھا۔اور  وہ اپنی قربانی تک دیتے رہے۔علی پہلا اور مقدم امام ہے،آپ اخلاقیات،عزت وقار،آزادی انصاف اور انسانیت کے امام ہیں۔علی جس کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ جو راستہ قرآن نے معین کیا ہے اس کو بیان کرے۔اور وہ راستہ جو اللہ نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہے۔ان کا ذہن کبی بھی خلافت یا دنیوی حکمرانی کیلے مائل نہیں ہوا وہ حکمرانی(خلافت) جسے آپ گوشت ۔۔۔۔۔۔۔کہتے تھے۔آپ اپنے آپ کو  وحی کا عملی نمونہ بنانے کیلے تابعدار رہے۔علی ایک ایسے امت کا امام ہونے کا خواہاں تھا کہ جس کی نعمتیں مکمل ہوتی ہیں اس      پیغام کو نافذ کر کے۔

یہ اسی لیے علی تمام مسلمانوں  شیعہ و سنی میں ایک معزز شخصیت ہیں،اور ساتھ ہی غیر مسلموں کی نظر میں بھی،جو تسلیم کرتے ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ علی منفرد خصوصیات کے حامل تھے۔علی نے اپنا کردار اور رول ادا کیا اور امام و نمونہ بنے تمام اقوام کیلے۔1974 کے ایک خطبہ جمعہ میں،مرحوم حکیم علامہ غروی نے علی کے بارے میں کہا کہ"اسلام کی تکمیل کے سلسلے میں ایک اہم سبب  بنے والی شخصیت کیونکہ امام علی کا کردار یہی تھا کہ آپ اسلام کے بنیادی  نظریات کی تشریح کرتے اور اس کو برقرار رکھتے۔
انہوں نے کہا:
"علی  نے  ملت اسلامیہ میں انصاف اور مساوات کو صحیح معنوں میں ہر لحاظ سے قائم کیا۔اور انہوں نے  سوچنے کی آزادی دی تاکہ لوگ آزادانہ طور پر  کسی کی بیعت اور اس پر اعتماد کے سلسلے میں رائے دیں۔ان کا وژن یہی تھا کہ لوگوں کی حکمرانی کیلے حکمران لوگ ہی منتخب کریں ۔اور یہ علی کے اسلام کی ایک خصوصیت ہے۔علی نے اسلام کا یہ اصول لاگو کیا،ان کے  پلان اور ان کے کام محفوظ ہیں،ان کے خطبات  لکھی ہوئی ہیں۔اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہر چیز مکمل ہے اور علی آخری وجہ ہے اسلام کی تکمیل کیلے۔
یقینا،یہ بے مثال انسان رسول اللہ کی جانب سے تعریف کا حق رکھتا ہے"من کنت مولاہ۔۔۔۔۔۔"پھر آپ نے علی کا ھاتھ تھاما اور فرمایا:
" من کنت مولاہ فھذا علی علیہ السلام مولا. فمن کنت مولاہ فھذا علی مولا ہ اللھم وال من والاہ وعادمن عاداہ "۔کتاب الکافی جز 4،صفحہ 65
   اب ،ہم پہلی آیت کو جسے ابراہیم سے متعلق قرار دیا تھا،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ابراہیم بھی امام بنے جب خدا کے کلمات پر پورا اترے،اس کا مطلب یہ ہو کہ  ایک انسان ایک مقام پر پہنچتا ہے کہ جب وہ اللہ کے پیغام کو عملی طور پر دکھاتا ہے،تو وہ (خلیفۃ اللہ) اللہ کا نمائندہ بنتا ہے،اور پھر اسی وقت ہی امام بننا ممکن ہے۔
    علی  اس وقت امام نبے جب انہوں نے اللہ کے کلمات اور اس کے  فرائض کو پورا کیا۔اللہ کے قابل ستائش خوبیوں کو بیان کیا۔صرف 5 سال کیلے نہیں بلکہ تمام ادوار کے لوگوں کیلے۔،ہر وقت کے انسانوں کیلے اور ہمیشہ کیلے۔اور یہی عظیم امامت ہے۔کوئی بھی شخص جو قرآن کو امام بنائے اور اس سے تمسک کرے وہ لوگوں کا امام اور مثالی نمونہ یا ماڈل؛ بن سکتا ہے-
     "  اور اللہ کے واسطے ویسی ہی محنت کرو جیسی کہ چاہیے اس نے تم کو پسند کیا اور دین میں تم پر کچھ مشکل نہیں رکھی تمہارے باپ کا دین اسی نے تمہارا نام پہلے سے مسلمان رکھا اور اس قرآن میں تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر ۔(الحج  آیت 78)۔ زعامت کبری(عظیم حکمرانی) کا مطلب صرف یہی ہے کہ قیامت تک دوام ہو۔کیا اسی لیڈر شپ میں جو علی ابن ابی طالب کا ہے جو کہ ایک مکمل اور صحیھ نمونہ ہے۔اس خلافت اور سیاسی لیڈرشپ میں کوئی مماثلت ہے؟کیا لفظ امام کے استعمال میں   شکوک و شبہات کی وجہ ھق سے انحراف نہیں۔؟(کتاب چند گفتار-سید محمد جواد موسوی غروی)
       اس بحث کا مختصر خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ ایک حکومت یا امارت کو چلانے کیلے جانشین یا خلیفہ منتخب کرنا  وہ کسی رسول کا فرض یا ان کی ڈیوٹی نہیں حتی کہ محمد ص کا بھی یہ فرض نہیں(کہ خود خلیفہ منتخب کرے)۔انبیاء خاص کر محمد ص کا مشن یہ ہے۔ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( 157 ) 
وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں
 (7:157) ۔ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( 158 ) 
(اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پیغمبر اُمی پر جو خدا پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ

کسی شخص کا اپنی طرف سے کسی کو ملک کا اختیار چلانے کیلے منتخب کرنا یہ آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے جو کہ غلامی اور بنڈیج کی ایک قسم ہے۔ایسے اقدامات رسول محمد کو بھیجے گئے اصل مقصد کے بھی خلاف ہے۔جیسا کہ اوپر کی آیت سے واضح ہے۔رسول اللہ کبھی بھی اپنے اس پیغام کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے۔جو آپ لے کر آئے۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ شدید مخالفت کا اظہار کرتے ہیں جب عمر کو ابو بکر نے خلیفہ منتخب کیا اور جب عمر نے بھی عثمان کو خلیفہ منتخب کیا۔انہوں  نے جان لیا کہ یہ قرآن و سنت کے کلاف ہے۔کتنی  جہالت ہے یہ سوچنا  کہ اللہ تعالی انسان کو ایمان لانے  یا نہ لانے کی آزادی دے  لیکن انسان کو خدا اس بات کی آزادی نہ دے کہ وہ اپنا لیڈر یا خلیفہ خود منتخب نہ کرے۔اس لیے یہ پیغام جو غدیر  کے مقام پر کے خطبہ  غدیرمیں  رسول اللہ نے دیا،و ہ ایسا  رسول  ہے آزادی،رہائی اور عدل و انصاف کا۔آپ نے تاقیامت  اپنی قوم کیلے معرفت دی  امام و ولی کا،جو ایک محدود وقت کیلے مقر نہیں کیا اور سیاسی حاکم کا تعین کرنا بھی نہیں تھا۔
        بار خدایا! ہمیں اپنی کتاب(قرآن)  کی روشنی میں ایمان سے منور کر دے اور  تیرے احکامات(امر) پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں اپنے امام(لیڈر) علی جیسا ماڈل اور مثالی انسان بنا۔/اے خدا درود و سلام ہو،علی بن ابی طالب پر،وہ  ہمارا اچھا امام اور تیرا نیک بندہ ہے(امام قائد لنا و عبد صالح لک) ۔آمین

  

‹.

No comments:

Post a Comment