Saturday, 17 October 2015

عزاداروں کی عزاداری

موضوع بہت سے لوگوں کو نا گوار گزرے گا ۔ ہم پر تنقید کرنے کے مزید دروازے کُھل جائیں گے مگر صرف ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ہماری بات کو سنا جائے تو شاید ہماری بات میں حقیقت ضرور نظر آئے گی۔یہاں ہم اس بات کی بھی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری یہ تحریر کراچی کی عزاداری کے 
حوالے سے ہے۔

* * * * * * * * *
ہمارے ملک میں شیعوں کا ایک گروہ پایا جاتا ہے کہ جو اپنی شناخت عزادار کے نام سے کرانا پسند کرتا ہے۔ یہ گروہ اپنے آپ کو ایک اور نام سے بھی روشناس کراتا ہے اور وہ لفظ مولائی‘‘ہے ۔ شاید یہ لفظ ’’ مولائی ‘‘ انہوں نے خود ہی ایجاد کیا اور اب اردو لغت ، ارد و زبان کے ایک اور لفظ سے آشنا ہو گئی ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ لوگ اپنے لیئے بدبو دار اور جنونی کے القابات بھی پسند کرتے ہیں۔ یہ عزادار گروہ محرم سے پہلے ہی سے کافی مصروف ہو جاتا ہے کیونکہ محرم کے لیئے سیاہ لباس کا بندوبست بھی کرنا ہوتا ہے اس لیئے یہ لوگ محرم سے پہلے بازاروں میں کپڑوں کی دکانوں اور ٹیلرز کی دکانوں پر بھی کثرت سے نظر آتے ہیں۔
محرم کے آغاز کے ساتھ ہی اس گروہ کے حلیے بھی بدل جاتے ہیں ۔اب یہ لوگ سیاہ لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں ۔ان کے گریبان کھلے ہوتے ہیں تاکہ’’ علی وارث ‘‘ کا گردن میں لٹکا ہوا لاکٹ زیادہ نمایاں ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس لاکٹ کی زیارت کر سکیں۔ اس کے علاوہ ان کے ہاتھوں میں کڑے بھی ہوتے ہیں اور سرخ و سبز رنگ کے دھاگے بھی باندھے ہوئے ہوتے ہیں جس کو کلاوے کا نام دیا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض افراد پاؤں میں بیڑیاں بھی ڈالے ہوتے ہیں ۔جب ان سے ان کڑوں اور بیڑیوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم امام سجاد علیہ السلام کی تاسی کر رہے ہیں۔ ان کی امام سے اس قدر محبت دیکھ کر کہ یہ لوگ اپنے ہاتھ اور پیروں میں ہتھکڑی اور بیڑی تک پہن لیتے ہیں ہم نے ان کو یہ بھی مشورہ دیا کہ آپ لوگ اگر زیادہ محبت کا اظہار چاہتے ہیں تو سینٹرل جیل میں اپنے آپ کو قید کر لیں تاکہ امام علیہ السلام کی مکمل تاسی ہو سکے مگر ہماری اس بات پر ہم کو اپنے بارے میں کافی غلط قسم کے جملے سننے کو ملتے ہیں جن کو ہم تحریر میں بھی نہیں لا سکتے۔ شاید ہم ان کی محبت کا صحیح ادراک نہیں کر سکے ہیں۔
ہم کو تو اب ایسی خواتین عزادار بہنیں بھی نظر آنے لگی ہیں کہ جو بی بی زینب سلام اللہ علیہ کی بے پردگی پر اس قدر رنجیدہ ہیں کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ کیونکہ بی بی کا پردہ باقی نہیں رہا اس لیئے ہم کون ہوتی ہیں کہ اپنا پردہ قائم رکھیں۔یہ ہم کوئی اپنی جانب سے گھڑی ہوئی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ ہمارے ہی معاشرے کی عزادار خواتین کا جملہ ہے
۔یہ عزادار لوگ محرم کے دوران سیاہ لباس ہی میں نظر آتے ہیں ۔ مگر آپ کو یہ لوگ صرف ایک جگہ پر سفید کپڑوں میں نظر آئیں گے کہ جب یہ لوگ زنجیر زنی یا قمہ زنی کرتے ہیں کیونکہ سیاہ لباس میں ان کی پیٹھ کا خون واضح نہیں ہوتا اس لیئے اس موقع پر سفید لباس زیادہ موزوں رہتا ہے تاکہ ہر شخص کے علم میں یہ بات آجائے کہ زنجیر زنی کی گئی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری کم علمی ہو اور شاید زنجیر زنی کے بعد سفید کپڑے پہننے کا زیادہ اجر وثواب ملتاہو۔بہر حال ہم نے کبھی کسی عزادار سے اس سلسلے میں تفصیلات جاننے کی کوشش نہیں کی ورنہ شاید جو چھریاں وہ اپنی پیٹھ پر مار رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے سر پر مار دی جاتیں۔
محرم کے دوران یہ لوگ اکثر گاڑیوں میں بلند آواز سے نوحوں کی سی ڈیز بجاتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ان کو وہ نوحے زیادہ پسند ہوتے ہیں کہ جس میں زیادہ شور ہو اور جس میں جھنکار بھی تیز ہو۔گلی ، محلوں اور سڑکوں پر اکثر ان عزاداروں کی گاڑیوں سے تیز نوحوں کی آواز سنائی دے رہی ہوتی ہے اورشاید ان کی اس تبلیغ حسینی کی وجہ سے لوگوں کی کافی بڑی تعداد دائرہِ تشیعُ میں داخل ہو چکی ہو گی جس کا ابھی مکمل ڈیٹا جمع کرنا باقی ہے۔
عزاداری کے جلوسوں میں بھی یہ عزادار کافی فعال نظر آتے ہیں ۔ اور کیوں کہ یہ جانتے ہیں کہ عزاداری ،مقصد امام حسین علیہ السلام کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے اسی لیئے یہ لوگ حصولِ مقصد امام میں سبقت لے جانے کے لیئے دوسری انجمنوں سے جھگڑا کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ جو انجمن بھی جلوس میں آگے نکل جائے گی وہ امام حسین علیہ السلام کی جانب سے زیادہ فضیلت اور مراتب کی حقدار ہوگی۔
عزاداری میں ہونے والی شبِ داریوں میں یہ عزادار جوق در جوق شریک ہوکر رات بھر عزاداری برپا کرتے ہیں۔یہ شب داریاں ایام عزا کے دوران ہر شب اتوار کسی نا کسی مرکزی امام بارگاہ میں منعقد ہو رہی ہوتی ہے۔ شب داری کے دوران یہ عزادار امام بارگاہ کے اطراف میں ٹولیوں کی شکل میں گھومتے نظر آتے ہیں۔امام بارگاہ کے اطراف میں موجود وہ چھوٹی دکانیں جن پر پان و سگریٹ دستیاب ہوتے ہیں عزداروں کی خدمت کے لیئے تقریبا شب بھر ہی کھلتی ہیں کیونکہ عزادار شب بھر جاگنے اور نیند بھگانے کے لیئے پان سگریٹ کا بھی بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور ان کی خریداری میں روپیوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔کیونکہ یہ خرچ ہونے والی رقم بھی امام حسین علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کا حصہ بن جاتی ہے۔شبِ داری میں جب ان عزداروں کا کوئی من پسند نوحہ خوان نوحہ پڑھنے آجاتا ہے تو یہ لوگ امام بارگاہ میں بھی تشریف لے جاتے ہیں اور اس نوحہ خوان کی واپسی کی ساتھ ان کی بھی امام بارگاہ کے داخلی راستے سے واپسی ہو جاتی ہے اور کسی اور من پسند نوحہ خوان کا انتظار بھی شروع ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ نو جوان عزادار امام حسین علیہ السلام کے درسِ محبت کو بھی پھیلاتے نظر آتے ہیں -- یہاں ہم اپنی بات کی مزید وضاحت نہیں کریں گے کیونکہ سمجھدار لوگ ہمارے ادھورے جملے سے بھی بات سمجھ جائیں گے)
عزاداروں کی عزاداری کے حوالے سے ہم ایک اہم بات کا ذکر بھول ہی گئے تھے کہ عزاداروں کی یہ عزاداری اب ’’میچ میکنگ‘‘ کا بھی ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری خواتین عزاداروں کا بہت اہم حصہ ہے۔ اس عزاداری کے ذریعے اب شادی کے لیئے باقاعدہ رشتے بھی تلاش کیئے جاتے ہیں ۔ وہ خواتین کے جو اپنے بھائی یا بیٹوں کی شادی کے لیئے کسی لڑکی کی تلاش میں ہوتی ہیں ان کے لیئے یہ عزاداری بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے وہ مجالس اور جلوسوں میں شامل ہو کر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر لیتی ہیں ، ہم کو نہیں معلوم یہ سب عزاداری کی کس منطق کے مطابق کیا جاتا ہے شاید اگر ان خواتین سے اس بارے میں کوئی وضاحت مانگیں تو وہ یہ بھی کہہ سکتی ہیں کہ یہ سب ہم امام حسین علیہ السلام کی تاسی میں کر رہے ہیں کیونکہ امام نے تو کربلا میں اپنی
بیٹی اور بھتیجے کی شادی کی تو ہم اسی کی یاد منا رہے ہیں۔
* * * * * * * * *


ہماری یہ تحریر ان عزاداروں کے متعلق ہے کہ جن کی اکثریت ہے اور یہی عزادار اور ان کی عزاداری آج شیعت کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ ہم خود اپنے آپ کو عزادار سمجھتے ہیں اور ایسے عزاداروں کو سلام پیش کرتے ہیں جو عقل و شعور اور معرفت کے ذریعے عزاداری کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے عزاداری کا وہ چہرہ شاید قلتِ تعداد کی وجہ سے پسِ پشت چلا جاتا ہے

بشکریه  سید علی احمد برادر

No comments:

Post a Comment