علاقه بلتستان کی ایک بدعت اور آغا شرف الدین کی نصیحت
"
علی عباس کو کچھ نهیں آتا تھا اگر کچھ تھوڑا بهت بھی آتا هوتا تو روضه الشھداء کے سینه کوبی میں شامل نهیں هوتے,اچھے خطیب و واعظ بنتے ,حرام پیسه وصول کر کے چند جهاز بدلتے هوئے قم سے بلتستان تک کے هوائی سفر کی سهولت حاصل نه کرتے,اسد مجالس جو اس علاقه (بلتستان )کی بدعات میں سے هیں ,ان دس روزه مجالس میں ان کے والد کی وراثت میں پته نهیں وه ایک دو دن آئے هوں ,منبر جو منبر رسول کهلاتا هے وه خاندان کے درمیان تقسیم هے شاید جسء کا حصه خریدا بھی جاسکتا هے.
......... وه روضه شھدا میں سینه کوبی کے کام میں شریک بنے هوئے تھے جهاں وه شباب مومنین کی پناهگاه میں تھے ,میں نے اس کی بھی شکایت کی که تمهارا کام منبر پر جا کر وعظ و نصیحت اور ھدایت کرنا تھا یا شباب مومنین کیلے سینه کوبی کرنا تھا ,تمهارا کام تعلیمات قرآن و سنت اور تاریخ اسلام بتانا تھا ,اھداف و مقاصد قیام امام حسین بتانا تھا ,سینه کوبی نهیں تھا ,لیکن اس کو گویا یه بات سنائی هی نهیں دیتی تھی.
"
آغا علی شرف الدین
خطداحیون,صفحه 204
No comments:
Post a Comment