Sunday, 18 October 2015

علم یا سیاه جھنڈا اور آغا سید علامه شرف الدین موسوی کا نظریه


(اصلاح شیعت پرآغا صاحب کی لکھی گئی سب سے پہلی کتاب سے اقتباس)



سیاہ جھنڈا/علم

"شیعان حیدر  کی دنیا  و آخرت کی پہچان ہے،دنیا میں دیگر قوموں کے سر خرو ہونے اور قبر میں منکر و نکیر کیلے تعارف ہے۔حضرت امام حسین ع کے علمدار حضرت عباس سے منسوب یہ سیاہ جھنڈا ہر امام بارگاہ پر نصب کیا جاتا ہے۔اسی طرح بہت سے شیعہ گھروں پر بھی یہ سیاہ جھنڈا لہرا رہا ہے۔اسے عزادار علم کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں جھنڈے کو علم کہنا صرف یہاں کی وضع کردہ اصطلاح ہے جب کہ پیغمبر اکرم ص،امیرالمومنین ع،امام حسین ع نے جب جھنڈے کا ذکر کیا تو اسے "لوا" اور "رایہ" کہا ہے۔شاید بعض علماء ،ماہرین صرف و نحو و اصول کہیں کہ اس میں کیا حرج ہے مجاز جائز ہے ہم بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں،کیونکہ جہاں حلال و حرام میں تغیر و تبدیل جائز ہے ہو تو الفاظ کی تبدیلی میں کوئی حرج نہیں رہتا،بعض اس علم کو  عقائد میں شمار کرتے ہیں چنانچہ دینی مدارس سے بھگوڑے یا کچھ عرصہ پڑھنے والوں کو عمامہ و عبا پہنا کر کہلوایا جاتا ہے یہ جھنڈا ہمارا مذہبی نشان ہے۔ اسی طرح شیعہ دینیات کے ترتیب دینے والوں نے منکر و نکیر کے سوالات کے  جواب میں لکھنا شروع کیا ہے کہ یہ جھنڈا ہمارا  نشان ہے۔

پہلے زمانے میں مجلس عزائے امام حسین ع میں عزاداروں کو کربلا میں حضرت ابوالفضل عباس ع کی شہادت کی یاد دلانے کے حوالے سے پرچم کا ذکر ہوتا تھا رفتہ رفتہ جب مجلس عزا نے ایک نئی شکل و صورت اختیار کی تو اس علم کو جلوس میں لایا گیا۔سابق زمانے میں اس کا رنگ سیاہ ہوتا تھا لیکن چند سالوں سے اس کے رنگ شکل ،قد و قامت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔کیونکہ جتنا مفاد پرستوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اسی تناسب سے اس کی شکل و صورت  اور تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔

جھنڈے کا مقصد لشکر کو اپنے گرد جمع کرنا تھا اسی طرح جلوس میں بھی لوگوں کو جمع کرنے کی خاطر ہوتا تھا۔لیکن جب لوگون نے اس جھنڈے کی تھیلی میں لوگوں سے نذروات لینا شروع کیں تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔رفتہ رفتہ یہ جلوسوں سے واپسی کے بعد ہمیشہ کیلے امام بارگاہوں میں نصب ہونا شروع ہوا۔اور اس کے نیچے ایک صندوق رکھا جانے لگا۔تاکہ عقیدت مند اس میں اپنی نذر و نیاز ڈالیں۔اب علم کربلا کی یاد دہانی کے بجائے صندوق نذر و نیاز کی نشانی بن گیا ہے۔پریشان حال لوگ اپنے مسائل و پریشانیوں کی خلاصی کیلے اس میں پیسہ ڈال کر اپنی پریشانی کے دور ہونے کے معتقد ہوئے ہیں۔کیونکہ ایک گروہ نے اس علم سے حاجتیں،نیازیں پورا ہونے کا پروپیگنڈا شروع کیا اور وقتا فوقتا ساحرانہ طور پر بناوٹی معجزات کا بھی چرچا کیا۔ دور  جاہلیت میں بتوں کی انتظامیہ بتون کے پیچھے کسی آدمی کو بٹھاتی اور وہ آنے والون سے اپنے نذر و نیاز کی بھیل مانگتا۔ جس کے نتیجہ میں بت پرست خواتین یہاں زیورات چھوڑتے اونٹ ذبح کرتے۔شاید انہی کی پیروی کرتے ہوئے آج کل یہ کام ریکارڈنگ اور مختلف طور طریقوں سے انجام پا رہا ہے۔

بعض علماء نے تو ہاتھ ہلا کر کہا،اس جھنڈے کو معمولی نہ سمجھنا،اسے ایک کپڑے اور لکڑی کا ڈنڈا نہ سمجھنا۔مجھے بھی ان سے اتفاق ہے یہ جھنڈا کوئی معمولی جھنڈا نہیں،کیونکہ اسے کوئی بھی چرسی ملنگ،فٹ پاتھ یا سڑک کے دوراہے پر لگائے تو یہ پوری قوم کی عزت و وقر کا مسئلہ بن جاتا ہے۔اس جھنڈے  اور گھوڑے کی اتنی اہمیت ہے کہ اسے اب تو بین الاقوامی استعمار نے بھی تسلیم کیا ہے۔وہ اس فیصلے پر پہنچے ہیں اس قوم کو ایک جھنڈا اور گھوڑا دے کر ان کے ملک بلکہ مذہب کو بھی خریدا جا سکتا ہے۔

 اس جھنڈے کا پس منظر کچھ یون ہے:

میدان کربلا میں دیگر جھنڈون کی مانند لشکر حسین ع کا بھی ایک پرچم تھا۔چنانچہ کتب و مقاتل میں بھی آیا ہے کہ امام حسین ع نے اپنے لشکر کے دائیں طرف کے لوگوں کیلے ایک  پرچم مخصوص کیا  اور یہ پرچم زہیر ابن قیس کو عنایت کیا اسی طرح بائیں جانب کا پرچم جناب  حبیب ابن مظاہر کو عنایت کیا اور ان پرچمون کے علاوہ ایک اور پرچم لشکر کے مرکز میں تھا جسے قطب و محور سمجھا جاتا تھا۔ اسے اپنے بھائی حضرت ابوالفضل عباس کو دیا۔ تمام کتب مقاتل میں آیا ہے "واعطی رایۃ الی الاخا العباس" جو اس پرچم کو اٹھانے کی تمام تر امتیاز و صلاحیت رکھتے تھے۔ اس پرچم پر زمان و مکان کے گزرنے کے بعد اثر اندا ہونے والے امتیازات  پر بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے

1- اس پرچم کے  رنگ اور قد و قامت کے زاویہ سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ پرچم اپنی اصلی امتیازات سے دور نہ ہو۔
2-حضرت امام حسین ع اور حضرت ابوالفضل عباس ع کی شہادت کے بعد اس پرچم کی حیثیت اور تاریخ کیا  رہی ہے۔
3- اس پرچم کو دوبارہ بلند کرنے اور اس پرچم کو اٹھانے والے افراد کی خصوصیات و شرائط کیا ہیں
4- اس پرچم کو تبرک کے طور پر مس کرنے اور اس سے اپنی حاجت کی برآوری کیلے رجوع کرنے کا عمل
5- اس پرچم کو نصب کرنا زمان و مکان کے حوالے سے اور اس کے بارے میں آئمہ طاہرین ع اور فقہاء و مجتہدین کی ہدایت و رہنمائی کیا ہے

پہلا نکتہ:
 تاریخ اسلام سے پہلے اور بعد میں ہونے والی جنگوں میں ملتا ہے پرچم سیاہ ہمیشہ دور جاہلیت میں نامناسب اور نفرت انگیز جگہوں پر نصب ہوتا رہا ہے۔اور اسی طرح اسلام کے مقابل جب مشرکین جنگ کیلے اسلام کے خلاف نکلتے تو ان کا پرچم سیاہ ہوتا تھا۔ پیغمبر اکرم ص کے بعد جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کے پرچم کا رنگ سیاہ تھا۔اسی لئے اس پرچم کو دیکھ کر صحابی امیرالمومنین ع ،عمار یاسر نے فرمایا  میں اس سیاہ پرچم کے خلاف لڑتا رہا ہوں اور اب بھی لڑ رہا ہوں۔جب بنی امیہ کے خلاف بنی عباس نے تحریک چلائی تو ان کیلے تحریک  چلانے والے ابومسلم خراسانی کے لشکر کے پرچم کا رنگ  بھی سیاہ تھا۔چنانچہ امام جعفر صادق ع نے عبداللہ بن حسنسے فرمایا کیا آپ نے ابوسلمی خلال سے کہا تھا کہ سیاہ پرچم بلند کریں،لہذا واضح ہوا کہ سیاہ پرچم کبھی بھی شیعوں کی نشانی نہیں رہا۔

دوسرا بکتہ:
یہ پرچم جو آج کل پرچم عباس ع کے نام سے معروف ہے یہ نسبت حقیقت سے عاری ہے کیونکہ یہ پرچم حسین ع کا ہے۔چنانچہ کتب مقاتل میں آیا ہے کہ امام حسین ع نے اپنا پرچم حضرت ابوالفضل عباس ع کو دیا جس طرح  جنگ خیبر میں پیغمبر اکرم ص نے اپنا پرچم علی ع کو دیا۔ جنگون میں پرچم ہمیشہ قائد جبگ کا ہوتا ہے۔اور کربلا میں قائد میدان امام حسین ع تھے۔ بلکہ درحقیقت یہ پرچم اسلام ہے جسے امام حسین ع نے اٹھایا تھا اور اس کے برعکس جو پرچم عمر سعد نے اٹھایا وہ پرچم کفر و مشرکین تھا لہذا اس پرچم کو حضرت عباس ع سے منسوب کرنا درحقیقت اصل صاحب پرچم کو دو درجہ نیچے لانا ہے ایک درجہ اسلام اور دوسرا درجہ امام وقت۔

تیسرا نکتہ:
یہ پرچم اپنی لمبائی کے لحاظ سے اس وقت ایک مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکا ہے جو کسی تفسیر کا محتاج نہیں۔جنگوں میں ایک صاحب شجاعت پرچم کو اٹھاتا تھا تاکہ لوگ اس کے گرد رہیں اور جنگ کے بعد اس کی طرف لوتیں لیکن موجودہ پرچم اتنا بلند اور وزنی ہے کہ کئی افراد اسے اٹھاتے  ہیں اور بعض جگہون پر تو اسے لٹا کر لے جایا جاتا ہے یہ مضحکہ خیز صورتھال دین و مذہب کے نگہبان علماء کی عدم توجھی کی بنا پر پیدا ہوئی ہے کیونکہ وہ اپنے مفاد کی خاطر اس کے خلاف آواز  نہیں اٹھاتے یا خاموشی اپنائے ہوئے ہیں۔

چوتھا نکتہ:
پرچم ہمیشہ میدان جنگ میں مرکز قوت  و قدرت کیلے اٹھایا جاتا ہے تاکہ منتشر توانائیاں ایک جگہ جمع ہو سکیں ،کربلا میں شہادت امام حسین ع اور اسارت اہل بیت ع کے بعد یہ پرچم بلند نہیں ہوا بلکہ اہل بیت ع کے آگے جو پرچم بلند تھا ،وہ پرچم کفر و باطل تھا،اہل بیت ع نے مدینہ واپسی تک کوئی پرچم بلند نہیں کیا۔ حتی کہ اس کے بعد بھی کسی امام نے اس پرچم کو اپنے گھر پر نہیں لگایا،اگر کسی کو کوئی تاریخی سند ملے تو ان سے گزارش ہے کہ اسے صفحہ قرطاس پر لائے،صرف یہ کہنا  کافی نہیں کہ ہر قوم کا ایک پرچم ہوتا ہے۔کیونکہ یہ جملہ بھی واقعیت سے مطابقت نہیں رکھتا،کیونکہ پنجابی ،سندھی،بلوچی یا عرب وغیرہ کا پرچم نہیں ہے پرچم صرف حکومتوں اور سیاسی احزاب کا ہی ہوتا ہے اگر یہ پرچم شیعون کی ہوتا تو اس ملک میں شیعہ تنظیمیں اپنا الگ الگ پرچم نہ بناتیں لہذا پرچم کیلے بہترین  و موزوں جگہ میدان جنگ ہی ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوا پرچم ایک مرکزی قوت ہے اور جب صاحب پرچم اسیر ہوجائے تو پرچم اٹھانے کی صلاھیت نہیں رکھتا میدان کربلا میں شہادت امام حسین ع اور اسیری اہل بیت ع کے بعد سید الساجدین ع نے کوئی پرچم بلند نہیں کیا۔اسی طرح جب کسی ملک میں کوئی عظیم شخصیت وفات پاتی ہے یا کسی بڑی آفت یا نقصان کا سامنا ہو تو  وہ اپنا پرچم چند دنوں کیلے سرنگوں کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں  اس کے برعکس شیعہ  قوم جتنے مسائل و مصیبتون میں گرفتار ہوتی ہے اتنا ہی اس پرچم کو بلند کیا جاتا ہے۔جتنی اسلام پر مصیبت پڑتی ہے اتنا ہی اس کو بلند کیا جاتا ہے گویا اس پرچم کا اسلام سے کوئی رشتہ ہی نہیں۔اسی لئے دین و مذہب کا مذاق اڑانے والی سیاسی پارٹیوں کے امیدوار بھی ووٹ حاصل کرنے کی خاطر اس پرچم کو اپنے گھر کی چھت پر بلند کرتے ہیں۔

پانچوان نکتہ:
یہ پرچم رمز وحدت امت ہے یعنی تمام افراد اس پرچم کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اس پرچم کے حامل شخصیات کی یہ منطق تھی کہ تمام امت امات واحدہ ہے لہذا انہوں نے بغیر کسی تفرقہ اور امتیازات سے ہٹ کر اس پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دی،ائمہ طاہرین نے ہمیشہ شیعون کو یہ حکم دیا وہ خود کو اسلام میں حل کر کے زندگی گزاریں یا اسلام کی چھتری کے نیچے زندگی گزاریں انہیں اپنا الگ تشخص قائم کرنے سے منع کیا بلکہ شیعوں کا تشخص اسلام کو ہی قرار دیا ہے۔
خدا وند متعال نے قرآن کریم میں انسان کو اپنے جیسے انسان سے حاجتیں طلب کرنے سے منع فرمایا۔اس منطق کے تحت کہ یہ لوگ کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ ۔جب ایک عاقل سمجھدار انسان کسی کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا تو ایک جھنڈا جو خود کھڑا نہیں ہو سکتا وہ کیسے انسانوں کی حاجتیں پوری کرے گا۔یہ جھنڈا جو سریون اور سیمنٹ سے بلند ہوا ہے اگر اسے گرا دیا جائے تو دوبارہ بننے میں یہ ان وسائل اور ساز و سامان کا محتاج ہے۔اگر ایک انسان عاقل اس سے جا کر حاجتی طلب کرے تو کیا اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز بات کوئی اور ہو سکتی ہے؟ اس پرچم  کے پرچار کرنے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں تو اپنے قلم و بیان سے واضح کریں کہ اس کے نیچے صندوق کیوں رکھے جاتے ہیں۔؟ اھر خواہش مند حضرات حضرت عباس ع کے نام پر اپنی نیاز اس میں ڈالتے ہیں تو سوال ہئ کہ اس سے جمع ہونے والی آمدنی کس حد تک  دین اور قیام امام حسین ع کے مقصد و ہدف کی سربلندی کیلے خرچ کی جاتی ہے۔ جبکہ یہ رقوم کوچنگ سینٹر،کمپیوتر سینٹر اور اس جیسے کامون پر خرچ کی جاتی ہے حالانکہ ان سرگرمیوں کا دین حضرت عباس ع سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔اس جھنڈے کو مقام و مرتبت دلانے کیلے مندرجہ ذیل نکات کے ذریعے پروپیگنڈا کیا گیا ہے:

1- اس جھنڈے کے چاہنے والون نے کہا،اس سے ہماری حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔
2-اگر اس کے خلاف کسی نے ذرا بھر نقد و انتقاد کی زبان کھولی تو علم اس کی گردن تور دے گا۔اسے عاقبت دردناک کا سامنا ہوگا،جیسے مشرکین بتوں کو برابھلا کہنے والوں سے کہتے تھے،تمہیں ہماری بتوں کی بددعا لگی ہے۔
3- بعض مصالحت آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہتے ہیں ،کم از کم ان کے معتقدین کے سامنے اہانت آمیز جملے یعنی اس کو جھنڈا،کپڑا نہ کہو اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔لیکن یہ عقل و شرع دونون لحاظ سے صحیح نہیں،خداوند عالم نے اپنے انبیاء ع کے ذریعے بت پرستون کے بتوں کے ساتھ جو رویہ رکھا وہ ان کے نظروں سے غائب ہے۔بنی اسرائیل  جن کے دلون میں گائے کی مھبت موجزن تھی ،موسی ع نے انہی گائے کو ذبح کرایا،سامری کے گوسالے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کی راکھ کو ہوا میں اڑایا،پیغمبر اکرم ص نے کعبے  میں موجود بتوں کو اپنے عصا سے پاش پاش کیا۔"

(صفحہ 64 و 65 عقائد و رسومات شیعہ
علامہ آغا علی شرف الدین بلتستانی)

تابوت شبیه اور آغا علامه سید علی شرف الدین موسوی



تابوت نکالنا

"یہاں عزاداری کا مظہر ایک تابوت کے پیچھے چند لوگوں کا رونا اور پیٹنا ہے۔ان کا کہنا کہ ہم اس عمل سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے وقت کے امام مظلوم کا تابوت ہے اور ہم اس کی مصیبت میں رو پیٹ رہے ہیں۔دنیا کا کوئی بھی عاقل باشعور انسان خاص طور پر غیر مسلم یہ نہیں سمجھے گا کہ اس جنازے کے پیچھے جانے والے امام حسین ع کی مصیبت منا رہے ہیں۔کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ واقعہ کربلا آج سے تقریبا 1400 سال پہلے وجود میں آیا ہے تو پھر آج اس دور میں کسی امام کا جنازہ اٹھایا جا رہا ہے۔"

صفحہ 63 کتاب عقائد و رسومات شیعہ،
علامہ آغا علی شرف الدین بلتستانی حفظہ اللہ

ذوالجناح اور آغا سید علی شرف الدین موسوی کا نظریه


ذوالجناح

عزادری امام حسین عہ میں شبیہ سازی کا ایک کردار امام حسین عہ کی سواری ہی۔ جو کہ امام حسین عہ کی شہادت کے بعد زین خون سے آلودہ ہو کر خیام کی طرف آئ، اہل حرم خیمے سے نکل آئے اور ایک کہرام جیسی مصیبت برپا ہوئ، اس سواری کی شبیہ بنا کر جلوس عزا میں کب لائ گئ اس کی کوئ دقیق تاریخ معلوم نہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ خود جلوس عزا آل بویہ کی حکومت میں ناکالا گیا ۔پوری دنیا میں جہاں جہاں اس گھوڑے کی شبیہ نکلتی ہے وہاں اسے چند گھنٹوں کے لیے استعمال میں رکھا جاتا ہے، لیکن بر صغیر کے عزادروں کو اس شبیہ سے اتنا لگاو ہے یا یہ ان کے حیوان پرست ہماسائیوں کی صحبت کا اثر ہے، کہ انھوں نے اسے اتنا مقام و اعزاز دیا جو کسی عالم و عابد کو بھی حاصل نہیں ہوا۔اس کے لئے املاک، جائداد،خادم وغیرہ وقف کرنا اپنی ایک جگہ پر ایک موضوع ہے،اس سے حاجتیں مانگنا اس وقت کا اہم موضوع ہے، اسی طرح اس کے بت بنا کر امام بارگاہوں اور مسجدوں میں رکھنا ایک نیا موضوع ہے۔ اس گھوڑے کو آج کل مولا بھی کھتے ہیں۔لیکن پہلے ذوالجنح کے نام سے پکارتے تھے،یعنی “ پروں والا گھوڑا“ اس کو پروں والا کھنے کی دلیل میں وہ روایت پیش کی جاتی ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہیں، وہ کچھھ یوں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ نے اپنے کمرے میں ایک پروں والے گھوڑے کی تصویر آویزاں کی ، جب ان سے پیغمبر اکرم صہ نے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا یہ حضرت سلیمان عہ کے گھوڑے کی تصویر ہے جس پر آپ صہ خاموش ہو گئے۔آپ صہ کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل غلط نہیں تھا۔ ماتم داروں کو اپنے اس عمل کی دلیل کے لیئے اس رویت کو پیش کرتے سن کر ہمیں حیرانگی ہوئ کہ ویسے تو حضرت عائشہ کا نام آتے ہی ان کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں۔ لیکن اپنے گھوڑے کی دلیل کے لیئے یہ بڑے ذور و شور سے ان کا نام لیتے ہیں تاکہ ان کی گھوڑا پرستی ثابت ہو جائے۔

اس گھوڑے کو پروں والا اس لیے کہتے ہیں کہ بھت تیز رفتار تھا ہاں یہ صفت اہمیت کی حامل ہے کہ میدان جنگ میں ایسا گھوڑا ہونا چاہیے جو دشمن کا پیچھا کر سکے یا اگر خود بھاگنا ہو اور دشمن پیچھے ہو تو ان کی گرفت میں نہ آئے، لیکن جب حر جعفی نے امام حسین عہ کے سامنے گھوڑے کی ایسی تعریف کی تو آپ نے اسے مسترد کیا۔

یہ گھوڑا وفادار ہے، اس لحاظ سے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔اس منطق میں کسی قسم کا وزن نہیں ہے کیونکہ ہر گھوڑا اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔ امام حسین عہ جس گھوڑے پر سوار تھے وہ ان کا وفادار تھا اور جس گھوڑے پر قاتلان امام عہ سوار تھے وہ ان کے وفادار تھے۔
اس گھوڑے میں ایک خاص صفت پائ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی اتنی قدر ومنزلت ہے ۔اس کے لیئے لاکھوں کی جائدادیں وقف کی جاتی ہیں اس کے سامنے نذریں پیش کی جاتی ہیں۔ وہ صفت یہ ہے کہ اس نے لوگوں کی نظریں امام حسین عہ سے موڑ کر اپنی طرف جذب کر لی ہیں۔اگر مغرب والوں کو اس کی اہمیت کا پتا چلتا تو وہ بھی اس کی حمایت میں مہم چلاتے۔

اس گھوڑے کی ایک صفت گس کی طرف شاید ماتم داروں نے توجہ نہیں کی کہ یہ ایک حیوان ہے۔اس پر شقی و سعید دونوں گروہ سوار ہوتے ہیں،ہاں جس گھوڑے پر مجاہدین دین و شریت کے دفاع کے لیئے سوار ہوتے ہیں وہ گھوڑا ان ماتم داروں سے بہتر ہے جو خداوند متعال سے عجز ونیاز کرنے کی بجائے گھوڑے سے سوال کرتے ہیں اور امام حسین عہ کی جگہ اس گھوڑے کو مولا کہتے ہیں۔

بعض اس گھوڑے کی دلیل میں کہتے ہیں کہ سورہ عادیات میں خداوند عالم نے گھوڑے کی قسم کھائی ہے، اور خدا جس چیز کی قسم کھائے وہ محترم ہوتی ہے لہذا اس کا احترام کرنے میں کوئ قباحت نہیں ہے۔ یہ منطق بھی بنیادی طور پر غلط ہے کیوں کہ خدا نے ہر قسم کے گھوڑے کی قسم نہیں کھائ بلکہ اس گھوڑے کی قسم کھائ ہے کہ جس پر میدان جنگ میں اہل حق سوار ہوتے ہیں۔وہ گھوڑا کیسے محترم ہو سکتا ہے جس نے میدان جنگ میں شرکت نہ کی ہو بلکہ اس کے اوپر فاسق و فاجر انسان اپنے کھیل کود یا ظلم و بربریت کے حصول کے لیئے سوار ہوئے ہوں یا جیسے بعض علاقوں میں پولو کے کھیل میں استعمال ہونے والے گھوڑے یا ایک عرصے سے عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے گھوڑے کیسے یہ منزلت پا سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں اہل تشیع سے تعلق رکھنے والوں سے ہٹ کر ہمارے خطے کے اہل تشیع نے امام حسین عہ کے نام سے منسوب گھوڑے کو ایک مقام و منزلت دی ہے اور اسے خاص نام “ ذوالجناح“ سے نوازا ہے اس کے بارے میں عقل و شریعت، قرآن و سنت اور فقہائے عظام کے رسالہ عملیہ کسی بھی جگہ کوئ سند نہیں ملتی۔اہل بیت عہ سے تعلق کا شرف و افتخار رکھنے والوں کے چہرہ سے اس بد نما داغ کو دھونے کے لئے اس سواری کے بارے میں چند زاویوں سے بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے:

١- تاریخی تناظر:- یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے حالت سفر یا جنگ میں سشمن سے نبرد آزمائ کے وقت ایک سواری کا ہونا ضروری ہے اور اسے فریق مخالف کے مقابلے میں ایک طاقت و قدرت سمجھا جاتا تھا اس لئے میدان جنگ میں فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا
(ا) پیادہ فوج (ب) گھڑ سوار فوج امام حسین عہ گرچہ اپنے والد کے ہمراہ جنگوں میں شریک رہے لیکن میدان کربلا میں چونکہ لشکر باطل کے مقابلے میں انتظام و انصرام کی لجام خود امام حسین عہ کے ہاتھھ تھی اس لیئے امام حسین عہ کے پاس ایک سواری کا ہونا حتمی تھا۔ جب ہم تاریخ و مقاتل کربلا پڑھتے ہیں تو امام حسین عہ کی سواری کے بارے میں مختلف ذکر ملتے ہیں لیکن یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ امام حسین عہ کے حالت سفر جس کا آغاز مدینہ سے ہوا اور کربلا پہچنے تک کسی ایک سواری کے نام کا ذکر نہیں ملتا-

الف-- صبح عاشور جب امام حسین عہ اپنے اصحاب کے ساتھھ لشکر اعداء سے خطاب کرنے گئے تو آپ عہ اونٹ پر سوار تھے
ب-- بعض مقاتل میں لکھا ہے کہ امام حسین عہ نیدان کربلا میں جنگ کے لیئے جس گھوڑے پر سوار ہو کر گئے یہ گھوڑا رسول اکرم صہ کی طرف سے آپ عہ کو ملا تھا اور اس کا نام “ مر تجز “ تھا
ج-- جب امام حسین عہ اپنی سواری کی زین پر رہ کر جنگ جاری نہ رکھھ سکے تو آپ عہ زمین پر اتر گئے اور آپ عہ کی سواری “ فرس “ آپ کے خیمے کی ظرف آگئی
د-- جب آپ عہ کے اہلیبیت نے آپ عہ کے گھوڑے کی آواز سنی تو خیمے سے باہر آگئے اور آپ عہ کے گھوڑے جس کا ذکر (لفظ جواد ) آیا ہے کی زین کی طرف دیکھا تو اہلیبیت نے فریاد و فغاں بلند کی-
ہ-- ذوالجناح دو کلموں کا مرکب ہے ایک “ ذو“ دوسرا “ جناح“ ذو عربی میں صاحب کو کھتے ہیں اور جناح پر یا بازو کو کہتے ہیں- سورہ انعام آیت ٣٨ سورہ شوریٰ آیت ٢١٥ سورہ حجر ٨٨ سورہ اسراء ٢٤ میں لفظ موجود ہیں- ذوالجناح یعنی صاحب پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سواری صاحب پر (اڑنے والی) تھی اس نام سے امام حسین عہ کی سواری کا ذکر تاریخی مقاتل میں کہیں نہیں ملتا بلکہ ایسا گھوڑا جا صاحب پر ہو اور اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو کربلا کیا کسی جنگ میں بھی اس سواری کا کوئ ذکر نہیں ملتا-
٢) :- دنیا کے کچھھ علاقوں میں اہل تشیع دسویں محرم کو ایک گھوڑے جس پر تیر کمان اور تلوار نصب کرنے کے علاوہ اس کی زین کو بھی خون آلود کر کے لاتے ہیں تاکہ ان واقعات کی منظر کشی کی جا سکے جو شہادت امام حسین عہ کے بعد پیش آئے لیکن یہ گھوڑا عصر عاشور کے بعد امام حسین عہ سے منسوب نہیں رہتا اور نہ ہی اس کو وہ مقام و منزلت حاصل رہتی بلکہ یہ اپنی عادی شکل میں پلٹ جاتا ہے لیکن ہمارے خطے میب جو مقام و منزلت اس گھوڑے کو دیا گیا ہے وہ ما فوق العقل و شریعت ہے- بعض اس کی سند میں مختلف منطق پیش کرتے ہیں جو اپنی جگہ مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہیں- جس طرح چکنے ہاتھھ کو پانی مس نہیں کر سکتا اس طرح ان کی منطق سے اس گھوڑے کو کوئ مقام و منزلت نہیں مل سکتی ہے۔ ان کی منطق کچھھ یوں ہیں:
بعضوں کا کہنا ہے کہ اس کی احترام کی علت امام حسین عہ سے منسوب ہونا ہے- اس سلسلے میں کسی چیز سے منسوب کی حیثیت اور احترام کے بارے میں وضاحت کی ضرورت ہے- نسبت کی دو اقسام ہیں: ١) نسبت حقیقی ٢) نسبت جعلی
١) نسبت حقیقی : حقیقی نسبت وہ ہے کہ واقعی منسوب ہو جیسے واقعی اس کا بیٹا ہے ، واقعی اس کی بیوی یا واقعی اس کا گھر ہےجس میں وہ قیام پذیر ہے ۔اسے نسبت حقیقی کہتے ہیں ،ہر منسوب چیز محترم نہیں ہوتی، جیسے حضرت نوح عہ کا بیٹا اور حضرت نوح عہ کی بیوی ان سے حقیقی نسبت کے باوجود کوئ افتخار نہیں رکھتے۔حضرت لوط عہ کی بیوی بھی محترم نہیں ہیں۔ خدا نے ان لوگوں کو اہل کفر کا نمونہ کہا ہے۔ تاریخ میں کہیں نہیں ملتا کہ آئمہ عہ جس گھر میں قیام پذیر تھے یا امام عہ کے ہاتھھ کا لگا ہوا کوئ درخت یا ان کا کوئ حیوان جس پر امام عہ سوار ہوئے ہوں لوگوں نے اسے وہ عزت وافتخار دیا ہو جو عام انسانوں کو بھی حاصل نہ ہو۔ بلکہ اس کے بر خلاف رسول اکرم صہ نے کعبہ سے منسوب حیوان (اونٹ) پر حاجی کو سوار ہونے کا حکم دیا-

٢) نسبت جعلی و اختیاری :- یعنی جس کا کوئ وجود ہی نہ ہو جیسے آج کل کے گھوڑے جن کو امام حسین عہ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، کسیکے نسبت دینے سے وہ چیز منسوب نہیں ہو سکتی- خداوند عالم نے قرآن میں دور جاہلیت میں رائج نظام “تبنی“ (یعنی کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہنا) کی نسبت کو باطل قرار دیا ہے مندرجہ ذیل آیات میں واضح ہیں:
الف) جن کو تم ماں کہتے ہو وہ واقعی ماں نہیں:- “ اور تمھاری وہ بیویاں جن سے تم ظہار کرتے ہو انھیں تمھاری واقعی ماں نہیں قرار دیا ہے“ (احزاب آیت ٤) “ تاکہ مومنین کے لئے منھھ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئ حرج نہ رہے“ ( احزاب آیت ٣٧)
ب) جن کو تم منہ بولے بیٹا کہتے ہو وہ تمھاری حقیقی اولاد نہیں ہو سکتے:- اور نہ تمھاری منہ بولی اولاد کو اولاد قرار دیا ہے “ (احزاب ٤) “ ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے“ (احزاب ٥) “ محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں “ (احزاب ٤٠)

جس بچے کو رسول اکرم صہ نے اپنی طرف نسبت دی تھی وہ بیٹا ان سے منسوب نہ ہو سکا تو ہمارا کسی حیوان کو امام حسین عہ کی طرف نسبت دینے سے وہ کیسے منسوب ہو سکتا ہے - ادیان سماوی میں تمام انبیاء سے لے کر رسول اکرم صہ تک خاص کر اسلام میں کسی مرنے والے حیوان کی نماز جنازہ پڑھنے کی کوئ دلیل ومنطق نہیں ملتی لیکن بلتستان(Baltistan) میں مستقل طور پر امام حسین عہ کے نام گھوڑا پالنے اور امام حسین عہ کے نام پر نکانے کے لیےخاص طور سے پنجاب سے ایک گھوڑا درآمد کیا گیا،معلوم نہیں وہ کس نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کا باقاعدہ استقبال ہوا اور گھر گھر لے جاکر اسے نہلایا گیا اور جس پانی سے اس کو نہلایا گیا اس کو جمع کر کے تبرک کے طور پر پیا گیا-

   قرآن کریم میں حضرت سلیمان عہ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ خدا کے حکم سے پرندوں کی آواز سنتے اور سمجھتے تھے۔ان کے علاوہ کسی نبی اور آئمہ عہ کے بارے میں کوئ روایت نہیں ملتی - قرآن و سنت اور نہ ہی جدید تحقیق سے یہ بات کشف ہوئ ہے کہ جانور انسان کی بات سنتے اور سمجھتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں بعض افراد اس حیوان کے کان میں منہ رکھھ کر اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں اگر یہ مذہب کا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے ؟

عراقی اسکالر احمد الکاتب کے جدید شیعه عقائد و نظریات



آقای احمد الکاتب کے عقائد(مکمل 50 نکات)

احمد الکاتب ایک مشہور عراقی اسکالر ہیں جن کی پیدائش کربلا مین ہوئے۔آپ کا تعلق اور سلسلہ جناب حبیب ابن مظاہر اسدی کے بھائی سے ملتا ہے جنہوں نے امام حسین ع کے ساتھ کربلا میں اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا۔آپ کی کتب اور مباحث عراق اور عالم اسلام میں بہت مشہور ہیں۔آپ کا شمار معتدل علمائے شیعہ مین ہوتا ہے(اثنا عشری کا لفظ ہم نے استعمال نہیں کیا)۔

ان کے عقائد و نظریات یہ ہیں:

1- ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔

2-ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ،یوم آخرت،ملائکہ ،آسمانی کتباور تمام انبیاء پر۔

3-ہم عقیدہ و منھج اسلامی کا التزام اور عبادات و احکام و اخلاق کو۔

4- ہم عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ قرآن میں آیا ہے۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا” الأحزاب 30
اور محمد ص کے بعد رسالت اسلامی ختم ہوا۔اور وحی کا نزول بھی آپ پر ھی ختم ہوا۔اور لوگ اب کتاب اللہ اور سنت صحیحہ اور عقل سلیم کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں۔

5- ہم ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮬﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽﺗﺤﺮﯾﻒ،ﺗﻼﻋﺐ،ﺍﻭﺭ ﮐﻤﯽﻭ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺷﮏﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺎ ﺧﻮﺩﺫﻣﮧ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ۔ : 
سورہ حجر آیت 9 ْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ” 
ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻗﺪﯾﻢ ﮐﺘﺐﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺿﻌﯿﻒ ﯾﺎﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕ روایات ھیں۔جن کو غلاۃ(شیعہ کا غلو کرنے والا طبقہ) نے اھل بیت ع کے نام سے گھڑا ھے.اور تاریخ میں علمائے شیعہ نے ان روایات پر تنقید اور ان سے لاتعلقی کا اظھار کیا ھے.افسوس کا مقام ھے کہ بعض شیعہ مخالف گروہ ان تاریخی جھوٹی روایات تحریف کو بنیاد بنا کر شیعوں پر تحریف قرآن کا الزام لگاتے ھیں.اور ان کو قتل کرنے اور کافر اور منحرف عقیدہ قرار دیتے ھیں(.جس کی بنیاد یھی من گھڑت غالیوں کے روایات ھیں.).

6- ہم رسول اللہ ص کے پاک صحابہ خصوصا مہاجرین و انصار اور اہل بیت ع کا احترام کرتے ہیں۔اور ان میں سے صالحین سے ہم راضی ہیں۔لیکن ہم ان سب کو معصوم بھی نہیں سمجھتے۔اور ہم ان پہ سب و شتم اور برائی منسوب کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔اور خصوصا حضرت سیدہ عائشہ ام المومنین کو سبکرنے کو۔اور ہمرا ایمان ہے کہ اللہ نے آپ کو بری کیا قضیہ افک سے۔

7- ﮨﻢ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﺍﺳﻼﻡ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﯾﻦ ﮨﮯجس میںﺳﯿﺎﺳﯽ،ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ کے احکام موجود ھیں۔جنﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺍﺧﻼﻕ ﺳﻠﯿﻤﮧ ﮨﮯ۔ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﻣﻨﺼﻮﺹ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎﺳﯿﺎﺳﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﻠﮯ اور اس پر کوئی معین نص موجودنھیں،ﭘﺲ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻧﻈﺎﻡﺷﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﯽﮨﮯ(تصور پیش کیاھے)۔ﺍﻭﺭﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ (اپنا حاکم) ﺍﻥﮐﮯ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯿﻠﮯ اختیار کرنے کی آزادی دی ھے ﻇﺮﻭﻑ ﺯﻣﺎﻧﯽ ﻭ ﻣﮑﺎﻧﯽﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ۔ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﻧﮯ ﮐﺴﯽﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﯿﻠﮯﻣﻨﺼﻮﺹ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ﭘﺲﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﻧﮯ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻧﭻﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ ﻣﻨﺘﺨﺐﮐﺌﮯ۔ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ،ﻋﻤﺮ،ﻋﺜﻤﺎﻥ،ﻋﻠﯽﻭﺣﺴﻦ، ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ. 

8- ہم اعتقاد نہیں رکھتے کہ امامت ایک ملحقہ جزو ہے نبوت کے ساتھ۔ یا یہ کہ اس کی تشکیل کیلے اس کی امتداد چاہیے۔اور نہ ہی ہم امامت کو اصول دین میں سے ایک اصل اور نہ ہی ارکان اسلام میں سے ایک رکن سمجھتے ہیں۔کیونکہ قرآن مجید نے اس کے بارے میں ذکر نہیں کیا۔اور لیکن یہ امامت ایک فرعی مسئلہ ہے جس کا شمار فقہ سیاسی میں ہوتا ہے۔ﺍﻭﺭ ﻇﻨﯽ ﺗﺎﻭﯾﻼﺕ ﺟﻮ ﮐﮧ اس سے متعلق ھیں وہ سبﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﯿﮟ۔

9- ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻋﻘﯿﺪﮦﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺴﯽ ﺍﻣﺎﻡ(ﺍﯼ ﺭﺋﯿﺲ ﺍﻟﺪﻭﻟﮧ ) کیلے معصوم ﮨﻮﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ،ﯾﺎ ﺍﺱﮐﻮ ﺍﻥ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻃﺮﺡﻭﺣﯽ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﯾﺎﺍﺱ ﮐﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﻖﺗﺼﺮﻑ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ،ﯾﺎ ﺍﺱﮐﮯ ﺍﻭﺍﻣﺮ(حکم) ﺭﺳﻮﻝ ﺹ ﮐﮯﺍﻭﺍﻣﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻭﺭ ﺍﺱﮐﮯ ﻧﻮﺍﮬﯽ (منع کرنا)ﺭﺳﻮﻝ ﺹ ﮐﮯﻣﻨﺎﮬﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭﻧﮧ ﮨﯽ ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻣﺖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﻮﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺣﺎﮐﻢﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﻨﺼﻮﺹ ﮨﻮ۔ﺍﻭﺭ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺒﮭﯽﺣﺠﺖ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ،ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔

-10 ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟﮐﮧ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ عﻧﻈﺎﻡ ﺷﻮﺭﯼﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﻮ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻟﮩﯽﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ،ﻧﮧ ﮨﯽﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﺎ ﮐﮧﻭﮦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﻧﮧﮨﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻏﯿﺐ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﺎ۔ﻭﮦ ﺭﺳﻮﻝ ﺹﮐﮯ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﮯ۔ﻧﮧﮨﯽ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﻉ ﻣﻌﯿﻦ ﻭﻣﻨﺼﻮﺏ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧﮬﮯ،ﻧﮧﻭﮦ ﻋﻠﻢ ﻏﯿﺐ ﺟﺎﻧﺘﮯﺗﮭﮯ،ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯﮐﻮﺋﯽ ﻭﻻﯾﺖ ﺗﺸﺮﯾﻌﯽ ﯾﺎﺗﮑﻮﯾﻨﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﯽ،ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻏﺎﻟﯿﻮﮞ (ﻏﻼٰۃ) ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﮨﮯ۔

10- ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہل بیت نظام شوری پر ایمان رکھتے تھے۔اور ان کو نظریہ امامت الہی کا علم نہیں تھا،نہ ہی انہوں نے دعوی کیا کہ وہ معصوم ہیں۔اور نہ ہی انہوں نے غیب دانی کا دعوی کیا۔وہ رسول ص کے احادیث کے روایت کرنے والے عالم تھے۔نہ ہی اہل بیت ع معین و منصوب من اللہ ےھے،نہ وہ علم غیب جانتے تھے،اور نہ ہی ان کیلے کوئی ولایت تشریعی یا تکوینی حاصل تھی،جیسا کہ بعض غالیوں(غلاٰۃ) کا دعوی ہے۔

11- ﯾﮧ ﻗﻮﻝ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﻉ ﮐﯽ ﺧﻼﻓﺖﮐﯿﻠﮯ ﻧﺺ ﺟﻠﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﺗﮭﺎ،ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ،ﯾﺎﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺩﻭﺳﺮﯼﺻﺪﯼ ﮨﺠﺮﯼ (199-100 هج)ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ،ﺍﺱﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﺎ ﺍﺱﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺱ (موضوع)ﮐﮯ ﮔﺮﺩ بحث و جدل بے فائدہ ھے( اس کا نہ ضرر ھے نہ کوئی نفع)۔اور نہ ھی اس بحث کی وجہ سے ھم زمانے کا کایہ پلٹ سکتے ھیں.ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻋﻠﯽ ﻉﮐﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﮯ ﮐﺴﯽﻧﺺ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﻭ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺁﭖ ﮐﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺑﺎﻟﻠﮧ،ﻭﺍﯾﻤﺎﻥﺑﺎﻟﺮﺳﺎﻟﺖ، ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡﮐﯿﻠﮯﺁﭖﮐﯽﻗﺮﺑﺎﻧﯽ،ﺍﻟﺘﺰﺍﻡﺣﻖ،ﻋﺪﻝﻭﻣﺴﺎﻭﺍﺕﺑﯿﻦﺍﻟﻤﺴﻠﻤﯿﻦ،ﺯﮨﺪﺩﻧﯿﺎ،ﺗﻮﺍﺿﻊ ،ﺷﻮﺭﯼ ﺍﻭﺭﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ یہ آپ کے فضائل کا ثبوت ھے۔ﺁﭖ ﻉ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﺭﺕﮐﺎ ﻣﻨﺼﺐ ﺳﻨﺒﮭﺎﻻ ﺟﺐﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﯽ۔

12- ﻋﻠﯽ ﻉ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪﺧﻼﻓﺖ ﻭ ﺍمامت ﮐﻮ ﺷﻮﺭﯼﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌﺍ۔ﺟﺲ ﻃﺮﺡﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺹ ﻧﮯ ﭼﮭﻮﮌﺍﺗﮭﺎ۔ﺁﭖ ﻉ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯﺣﺴﻦ ﻉ ﮐﻮ ﻭﻟﯽ ﻋﮭﺪﻣﻘﺮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺑﮯﺷﮏ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﮐﻮ ﺧﻮﺩﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺨﻮﺷﯽﺍﻣﺎﻡ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯿﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽﻃﺮﺡ ﺍﮨﻞ ﮐﻮﻓﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﯿﻦ ﻉ ﮐﻮ۔ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﯿﻦ ﻉ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻠﯿﻔﮧﻣﻌﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﭘﺮﻓﺮﺽ قرار دیا۔ﺍﻭﺭ ﺣﺴﯿﻦ ع ﮐﮯﺑﺎﻗﯽ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﻌﯿﻦ ﯾﺎﻭﺻﯿﺖ ﻧﮩﯿﮟ کی ﺍﻭﺭ ﻧﮧﮨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ ﺍﺱﮐﻮ ﻓﺮﺽ قرار دیا۔

13-ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼ ﺳﻦ260 ﮬﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻻﻭﻟﺪ(بغیر اولاد کے)ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ کسی کوﻭﺻﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﯽ۔ﻧﮧﮨﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺨﻔﯽﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﺍﮎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﯾﮧﺑﺎﺕ(لاولدھونا) ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟﻭﺍﺿﺢ ﺗﮭﯽ۔

14- ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﯽﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺎﺭﮬﻮﯾﮟ ﺍﻣﺎﻡﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺎﺋﺐ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺁﺝ1500 ﮐﮯ ﻟﮓ ﺑﮭﮓبتاﯾﺎﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﯾﺴﺎﮐﮩﻨﺎ ﻭﮨﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﮨﮯ۔ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽﺷﺮﻋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﺗﺎﺭﯾﺨﯽ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺭﻭﮬﻮﺍﮞﺍﻣﺎﻡکے وجود ﮐﻮ ﻓﺮﺿﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮﺑﻌﺾ ﺍﻣﺎﻣﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﮦ ﻧﮯ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﺎﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼ ﻻﻭﻟﺪ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺋﮯ

15- ﮨﻢ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ"ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ" ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥﻧﮩﯿﮟﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﺩﻧﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮨﮯﺟﺴﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﻔﺎﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞﮐﯿﻠﮯ ﻣﻌﯿﻦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ (ﮐﺴﯽ )ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮭﺪﯼ ﮐﮯ ﻇﮩﻮﺭﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻄﻌﯽﺩﻟﯿﻞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔۔

16-ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺫﯾﻞﻣﯿﮟ: ﮨﻢاﻣﺎﻡﻣﮭﺪﯼﮐﯿﻠﮯﮐﺴﯽﻧﯿﺎﺑﺖﺧﺎﺻﮧﻧﻮﺍﺏﺍﺭﺑﻌﮧ۔ﺳﻔﺮﺍﺀ ﺍﺭﺑﻌﮧ ) ﺍﻭﺭﻧﯿﺎﺑﺖ ﻋﺎﻣﮧ (ﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﯿﻠﮯﻧﯿﺎﺑﺖ ﮨﻮﻧﮯ) ﮐﺎبھیﯾﻘﯿﻦﻧﮩﯿﮟﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﺍﻣﺎﻡ ﻣﮭﺪﯼ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮﮐﺒﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻏﺎﺋﺐ ﺑﮭﯽﮨﻮﮔﯿﺎ! ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺱ کوﺍﯾﮏ ﻓﺮﺿﯽ ﻭ ﻇﻨﯽ ﺩﻋﻮﯼﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺟﺲ ﮐﺎﺩﻋﻮﯼ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽﺷﺮﻋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ اور يہ دعوي دراصل ان اشکالات کو حل کرنے کی کوشش میں وجود میں آیا جب ان کو اپنی قیادت کی وفات کا سامنا کرنا پڑا.ﺍن ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﯾﮧﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺟﻮﺩ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﺭﮬﻮﺍﻥﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﯿﺒﺖ بنا۔

17- ﮬﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﺑﮭﯽﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮐﮧﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﯿﺴﮧﮐﮯ ﻣﺸﺎﺑﮧ "ﻧﻈﺎﻡ ﻣﺮﺟﻌﯿﺖ" ﮨﮯ،ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻠﻤﺎء ﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ(ﺩﯾﻨﯽ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﻣﯿﮟ )ﺭﺟﻮﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔ﺍﺳﯽﻟﺌﮯ ﮨﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﯿﻠﮯﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﻮ ﻭﺍﺟﺐﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﻓﻘﯿﮧ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﯽﺍﺧﺘﺼﺎﺭ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟﻭﺍﺟﺐ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺑﻠﮑﮧﮨﻢ ﺣﺮﻣﺖ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺱﺗﻘﻠﯿﺪ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﻮ بدعتﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟﺍﺗﺎﺭﯼ۔ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺗﻤﺎﻡ ﻗﺪﺭﺕﯾﺎ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯﻣﮑﻠﻔﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯﮨﯿﻦ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺻﻮﻝ ﻭﻓﺮﻭﻉ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟﺍﺟﺘﮩﺎﺩ ،ﻏﻮﺭ ﻭ ﻓﮑﺮ ﺍﻭﺭتحقیق ﮐﻮﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯﺗﮭﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺷﯿﺦﻃﻮﺳﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧﻣﺨﺘﻠﻒ ﺁﺭﺍﺀ ﮐﻮ ﺩﺭﺍﺳﺖﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﺻﺎﺋﺐ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﻮ ﺍختیاﺮﮐﺮﯾﮟ۔

18- جیسا ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻋﻮﺕﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺠﺘﮩﺪﯾﻦ ﮐﻮﮐﮧ ﻭﮦ ﻓﻘﮧ ﻭ ﺍﺻﻮﻝ ﻣﯿﮟﺍﭘﻨﮯ دﺭﺍﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻡﺍﻗﺘﺼﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ﺑﻠﮑﮧﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﻋﻮﺕﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﻘﺎﺋﺪﺍﺳﻼﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯﺩﺭﺍﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺼﻮﺻﺎﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﺍﻟﮩﯽ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﺎﺥ ﮨﮯﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ 12 واں امامﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩﮐﻮ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺱﻣﯿﮟﺑﮭﯽ ﻋﺪﻡ ﺍﻗﺘﺼﺎﺭ ﮐﻮﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ۔ؔ
19- ھم علماء سے متعلق مراقبت،احتساب اور نقد کا نظریہ رکھتے ھیں.پس وہ جو فتوی دیتے ھیں.وہ کل کے کل صحیح اور ھمیشہ شریعت کے مطابق ھے؟ پس تحقیق اکثر علماء بھی شبھات اور اھواء کا شکار ھوتے ھیں .پس وہ اس چیز کو جسے اللہ نے حلال کیا اس کو حرام اور جس چیز کو حرام کیا اس کو حلال کرلیتے ھیں.(جیسا کہ ان کا قول کہ خمس واجب ھے اور معین کرنا نماز جمعہ کو کہ غیر واجب ھے۔).
   20-  ہم علماء کے فتاوی کو شرعی اور قانونی طور پر لازمی طور پر پابندی کو لازمی نہیں سمجھتے۔الا یہ کہ ان کا فتاوی ایک دستوری اجماع ایسے مجالس شوری جس کو امت نے منتخب کیا ہو اس میں اجماع کے ذریعے فتوی دیا ہو۔
21-ھم اصولی شیعہ مسلک کی قدر کرتے ھیں جس نے اجتھاد کا دروازہ کھولا اورتشیع کو توازن و اعتدال کی طرف لوٹایا. اور اخباری شیعوں کے بہت سے خرافات اور اساطیر کو ترک کیا.اور ھم فقھاء سے اصول و فروع اور رجال و حدیث میں مزید عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ھیں.اور غلاۃ مفوضہ جو اھل بیت ع کی طرف صفات ربوبیت کو منسوب کرتے ھیں اور ان سے متعلق غلو کرتے ھیں اور ان کیلے مقامات علیا کرتے ھیں اور بشر سے اوپر اور خدائی صفات کے قائل ھیں جیسے ولایت تکوینی تفویض اور خلق و رزق،ان کا بھی مکافحہ ھونا چاھیے.
  22-همارے اس دورمیں علماۓ شیعہ کی کوشش لائق تحسین ھے خصوصا اصولی شیعہ مسلک کی جنھوں نے دراست حدیث اور علم رجال کا کام کیا ھے اور الکافی میں موجود تمام احادیث میں کے 5 حصوں میں سے 4 حصہ کو ضعیف قرار دیا.ان کو ھم دعوت دیتے ھیں کہ جو احادیث باقی بچ گئے ھیں اور ان کو سابق علما نے درست یا مستند کہا ھے ان پر نظرثانی کریں.کیونکہ بعض غالی جو نے احادیث کے راوی کے روپ میں آئے اور ان کے روایات کو درست قرار دیا گیا اور وہ اپنے مشن میں کامیاب ھوئے.اسی وجہ سے ھمیں الکافی کی ھر 100 میں سے 99 احادیث پر شک ھوتا ھے اور اسی قسم کی (غالیوں کی)احادیث کی وجہ سے مسلمان مسلسل (فرقہ وارانہ) اختلافات کا شکار ھیں.
23-ھم حکومت رجال دین(تھیوکریسی) پر ایمان نھیں رکھتے اور نہ ھی ولایت فقیہ پر.جو کہ فقیہ کو مطلق اختیارات دیتا ھے اور اس کو قانون سے بالاتر مقام دیتا ھے اور اس کو تجاوز کرنے دستور میں ! ھم اگرچہ ولایت فقیہ کو اس نظریہ انتظار مھدی سے کی نسبت مثبت نظریہ سمجھتے ھیں کہ جس میں امامت الہی کی بنیاد،عصمت اور علوی حسینی ھونے کی شرط اتھارٹی ھے. جب کہ ولایت فقیہ ایمان،شوری کی بنیاد کو اتھارٹی سمجھتا ھے.ھمارا اعتقاد ھے کہ نظریہ ولایت فقیہ ایک حادثاتی نظریہ ھے جس کی کوئی شرعی دلیل موجود نھیں.اور محقق علما اس کو مانتے نہیں کیونکہ یہ حاکم کو دینی اسٹیٹس دیتا ھے اور اس کے گرد مقدس ھالہ بناتا ھے اور اس کو محاسبہ اور جانچ پڑتال سے استثنا دیتا ھے.اور نقد و تغییر سے بھی.اور اس کو ایک استبدادی ڈکٹیٹر بناتا ھے اور یہاںدیتے ھیں اس سے افضل نظریہ اور قیام کی کہ جس کی بنیاد کا محور شخصی صلاحیات اور عوام کی جانب سے(شوری) انتخاب ھو.

 24-ھم دیگر مذاھب اسلامی کیلے وسعت نظری رکھنے پر یقین رکھتے ھیں.اور ان کے اجتھادات کا بھی احترام کرتے ھیں.اور ھم عملی طور پر شیعہ سنی کو مشترکہ اجتھاد کی دعوت دیتے ھیںاور قرآن کی طرف رجوع کی.اور قرآن کو باقی تمام مصادر شریعت کا اول اور اعلی مصدر شریعت قرار دینے کی دعوت دیتے ھیں
25-ھم تمام شیعہ و سنی احادیث کے مصادر کا احترام کرتے ھیں.لیکن ھم ان مصادر احادیث میں سے جو ضعیف احادیث رسول ص کی طرف منسوب ھیں اور قرآن و عقل اور علم کے مخالف ھیں.ایسی احادیث کی تنقیح کا مطالبہ کرتے ھیں.
26- ھم شیعہ و سنی دینی مدارس اور حوزات علمیہ کے باھمی میل جول کے قائل ھیں.مکتب کے پروگرام،اساتذہ اور طلباء کیلے ایک ماحول اور حدود میں رھتے ھوئے آزادی رائے اور بحث و تقابل مسالک کیلے اقدامات کیے جایں.
  27- ہم وسعت نظر کے قائل ہیں دوسروں کے ثقافت سے متعلق، اور سب گروہوں کیلے ثقافتی وسائل و ذرائع کی فراہمی کی آزادی کے حق میں ہیں،اور دوسروں کے ثقافتی پراڈکٹس کو کنٹرول کرنے اور پابندی لگانے کے حق میں نہیں۔
  28-ھم وحدت عالم اسلامی پر ایمان رکھتے ھیں.ھم فرقہ کی تمیز(اس کی بنیاد پر تفریق) سے علحیدہ ھیں.اور ھم ھر ملک میں وحدت وطنی اور مختلف فرقوں کے درمیان سیاسی اشتراک پر عمل کے داعی ھیں جس کی بنیاد ملک،حریت،عدالت و مساوات ھو۔

 29- ھم یقین رکھتے ہیں کہ شدت پسندی کا حل دستوری موسسات کے قیام اور ڈیموکریٹک نظام اور پر امن اتھارٹی  کے استعمال کرنے  سے ممکنہے  اس طرح تنازعات جس کا نتیجہ تشدد ہو  اور انتشار کے طور پر ملتا ہے اس نظام کے تحت حل کرنے میں مدد ملے گی۔اور کسی فوجی طاقت و قوت کے زور کی ضرورت بھی اس صورت میں نہیں رہے گی(اگر اس طور پہ حل نکالا جائے تو)۔

 30- ہم دعوت دیتے ھیں کہ فرقوں کے درمیان بے فائدہ جدل و جنگ کو بند کیا جائے. اور دوسروں کے شعائر یا مقدسات پر حملہ کر کے ان کو اشتعال دلانے کے اعمال کو روکا جائے مشتعل  خصوصا صحابہ کرام،اھل بیت اطھار اور آیمہ مذاھب سے متعلق دوسروں  

31- ھم یہاں اسی مناسبت سے احیاء کرنا چاھتے ھیں "مؤتمر النجف الاشرف" جو تاریخ میں شوال 1156 ھجری بمطابق 1743 عیسوے میں ھوا.جس میں عرب،ترک فارس اور افغانستان کے شیعہ وسنی علماء شریک ھوئے.جس کی صدارت سنی شیخ عبداللہ السویدی،مفتی افغان ملا حمزہ القلنجانی!مفتی ایران ملا باشی علی اکبر اور مرجع کربلائی سید نصراللہ الحائری نے کی.جنھوں نے مشترکہ اتحاد پر مبنی شیعہ و سنی علماء نے فتوی صادر کیے.اور جس میں شیعہ نے سب صحابہ کو ترک کرنے،جب کہ اھل سنت نے شیعہ کو (مسلمان فرقہ کے طور پر)تسلیم کیا.اور اس میں یۂ اظھار کیا کہ تمام الزامات اور غلطیوں کو جو بعض فروعی مسائل میں تھے حریت و آزادی اختلاف قرار دیا اور شیعہ و سنی علماء نے ان موقع پر ایک دوسرے کے خون بہانے کو حرام قرار دیا.
.
32-ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ (اصحاب رسول ص پر)نقد ،سب ،لعنت کرنا اور تکفیر منافق و مرتد ھونے کا الزام یہ ایک فتنہ ھے جس فتنہ کبری میں مسلمان بہ گئے اور اس نے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کیا.اور ضروری ھے کہ اب اس فائل کے چیپٹر کو کلوز کرے، یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ ہم تاریخ کے ان زخموں کو تاقیامت کھولتے رہیں۔ 

33- - اور ضروری ھے کہ ماضی کے صفحات کو لپیٹا جائے.اور احداث و واقعات تاریخ میں گہرا غوطۂ زن ھونے کی بجائے اس کو صرف عبرت کے حصول کے طور پر پڑھا جائے.

34-ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہل تشیع کے پاس مثبت مبادی ہیں بہت سے جیسے کہ عدل،اسلام کا دفاع اور عمل فی سبیل اللہ اور ظالمین کے خلاف قیام۔اور یہی وہ امور ہیں جن کی حاجت آج کے مسلمانوں کو ہے۔ تاکہ اپنے آپ کو طاغوت سرکش ظالمین کے خلاف کھڑے کر سکیں اور غیر ملکی تسلط سے اپنی زمینوں کو چھڑا سکیں۔لیکن ہم جدل اور بحث جو نظرية “الإمامة الإلهية” اور امامت پر اللہ کی جانب سے نص پر ہے اس کو ہم اس کو ترک کرتے ہیں کیونکہ یہ بے فائدہ بحث ہے۔اور اس کا نقصان فائدہ سے زیادہ ہے۔اور اس کے نتائج ناپسندیدہ ہیں۔ اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے اور مسلمانوں میں سے بعض کا بعض سے دشمنی کو بڑھاتا ہے۔

35- - ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ زکوۃ دینا واجب ہے اور اس کے لئے عملی اقدامات کی دوعت دیتے ہیں ۔اور شیعہ و سنی کے تفریق ختم کرنے کی،دعوت دیتے ہیں۔ کیونکہ اللہ نے اہل دین کیلے معین نہیں کیا یہ حد شیعہ و سنی کی زکوۃ دتے ہوئے،،بلکہ یہ فرض کیا کہ صالح فقراء کو انسانوں میں دئے جائیں۔

36- - ھم خمس کے واجب ہونے کا اعتقاد نہین رکھتے،بلکہ اس خمس کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ(خمس دینا) یہ غنائم جنگ تک ہی محدود ہے اسی میں واقع ہوا ہے۔اور علی نے اپنی دور خلافت و حکومت میں اس (خمس دینے /لینے پہ عمل نہیں کیا) کا حکم نہین دیا ۔اور بلکہ اگر صحیح روایات شیعہ اور سابق علماء کے فتاوی اس بات کی تائید کرتے ہیں "عصر غیبت امام زمان" میں خمس دینے سے متعلق ۔ بے شک offcourse ہم اس کے متعلق ایمان نہیں رکھتے کہ خمس فقہاء یا ان کے وکلاء کو دی جائے۔کیونکہ ایسا کرنا ایک جدید رائے ہے جس کا پتہ سابق علمائے شیعہ جیسے المفيد والمرتضى والطوسي کو نہیں تھا۔بلکہ یہ لوگ اس خمس کے متعلق اپنے شبہات confusion کا اظہار کرتے تھے اور فتوی دیتے تھے کہ اس کو جمع کر دیا جائے یا اس کو زمین میں دفن کیا جائے امام زمانہ کے آنے تک۔، اور ہم علماء کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ علم کی تحصیل اور دعوت و ارشاد کے عمل میں آگے آئیں ،بجائے اس کہ کہ وہ مال جمع کرنے میں لگے رہیں اور اپنے آپ کو شبھات و اقاویل کے خطرے میں ڈالیں۔ 

37- ہم دعوت دیتے ہیں کہ فلاحی اداروں کیلے مالی امداد دی جائیں۔جس کا مقصد اجتماعی اور ثقافتی پراجکٹس اور اسکیموں کو کور کرنا ہو۔اور اسی میں سے یہ مساجد ،مدارس دینی اور علمائے دین کی دیکھ بال کے اقدامات بھی ہوں۔ہاں مگر اس کے حساب کتاب اور شفاف طریقے سے خرچ کیلے تفصیل اور آڈت کا نظام بھی ہو۔

38- - ھم نماز جمعہ کو عین واجب ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔اور یہ ہر اس شخص پر واجب ہے جس میں شرائط پائی جائیں۔ اور ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں علمائے شیعہ کے اس اقدام کو جو انقلاب اسلامی کے بعد اٹھایا ایران عراق لبنان اور دوسرے ممالک میں۔ہم سب لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ اس کے پڑھنے کو عام کریں اور انتظام و دقت کریں اس کو لازم کرنے کیلے۔ہم نماز جمعہ کو ایک ایسا موقع و مناسبت عظیم سمجھتے ہیں جو کہ تقوی،معرفت الہی کی طرف رغبت دیتا ہے اور جمعہ ایسا مناسبت نہیں کہ جس میں ظالموں کیلے دعا کی جائے اور ان کے غلط اعمال کو Justify کریں۔

39- ﮬﻢ ﺍﺫﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧﮐﻮ ﺟﺴﮯ "ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺛﺎﻟﺜﮧ"ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮨﮯ:
ﺍﺷﮭﺪ ﺍﻥ ﻋﻠﯿﺎ ﻭﻟﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ

ﮨﻢﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻼۃﻣﻔﻮﺿﮧ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻣﻦ ﻻ یحضرہﺍﻟﻔﻘﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺦ صدوقﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺷﮩﺎﺩﺕﺛﺎﻟﺜﮧ ،ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺪﻋﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟﺗﻔﺮﻗﮧ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﮯ۔

40- - ہم تقیہ کرنے کو درست نہیں سمجھتے جیسا کہجو ایک مسخ صورت میں ہم دیکھتے ہیں۔ ھم جیسا کہ اس قول کی جو امام جعفر سے منقول ہے اس سے قبول نہیں کرتے:۔
: “التقية ديني ودين آبائي، ولا دين لمن لا تقية له”
اس کو ہم آئمہ پہ منسب جھوٹی حدیث سمجھتے ہیں۔اس کو عقلی اور تاریخی مبرر حاصل نہیں۔پس تقیہ بھلا کیسے دین کا ایک جزو بن سکتا ہے؟؟اور آئمہ کب تقیہ کرتے تھے؟اور وہ کن سے ڈرتے تھے؟؟اور ہم یہاں سمجھتے ہیں کہ ایسی احادیث موضوع یا بناوٹی ہیں۔ یہ اس قسم کی جعلی احادیث غااۃ نے گھڑی ہیں تاکہ وہ اپنی جھوٹے اور باطل نظریات کو اہل بیت کے نام سے پھیلا سکین،وہ اہل بیت کہ جنہوں نے ان غلاۃ سے اعلانیہ برات کا اعلان کیا۔۔۔۔۔۔!
اور ہم دعوت دیتے ہیں کہ فکر اہل بیت اور تراث اہل بیہت کو پڑھیں۔ان کے زندگی کے ظاہر کا مطالعہ کرین اور ان کے افعال و اقوال سے متعلق کسی قسم کے باطنی معاکس کو قبول نہ کریں،اور ہمارے اس زمانے میں کہ جب آزادی مکمل طور پر حاصل ہے اور ہر انسان کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے۔ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ تقیہ کا عھد گزر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شیعہ کے پاس کوئی عیب والی چیز نہیں کہ وہ اس کو چھپائیں یا دوسروں سے ڈریں۔اور نہ ہی کوئی ایسی چیز مانع ہے کہ وہ اپنے آراء کا اظہار کر سکیں۔خصوصا جب طاقتور شیعہ حکومتیں بن گئی ہیں اور وہ ایک آزاد ڈیموکریٹک ملک میں رہ رہے ہوں۔اس لئے اب وہ اپنے آراء کو آزادی و بہادری سے اور سچائی(نہ کہ تقیہ) کے سہارے اظہار کر سکتے ہیں۔اور ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جو کسی معین فکر کا انکار کرے لازما وہ تقیہ کر رہا ہو۔پس ہر شیعہ ان قدیم کتب میں وارد ہر بات کو من و عن نہیں مانتا،اور یہ علماء ہیں کہ جنہوں نے بہت سارے اسی ایسی باتوں کا رد کیا ہے اور برات ظاہر کیا ہے جو کچھ قدیم کتب شیعہ میں آیا ہے۔

41- ﮬﻢ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﻥﺩﻋﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻏﻼۃﺍﻭﺭ ﻣﺘﻄﺮﻓﯿﻦ ﮐﮯ ﺟﻌﻞﮐﺮﺩﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻋﻠﻤﺎﺀﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻨﻘﯿﯿﺢ ﻭ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ع ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ "ﺯﯾﺎﺭﺍﺕ"ﺟﯿﺴﮯ ﺯﯾﺎﺭﺕﺟﺎﻣﻌﮧ،ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻋﺎﺷﻮﺭﺍ،ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺴﺎﺀ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﺟﻮ ﮐﮧ اصحاب رسول ص کی ﻣﻮﺍﻗﻒ ﺳﻠﺒﯽ پر مشتمل ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺭﻭﺡ ﺍﻭﺭﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﮯﻣﻨﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ۔ﺟﻦ ﮐﻮ ﻏﻼۃ ﻧﮯ ﮔﮭﮍ ﮐﺮ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﻧﺴﺒﺖﺩﯼ ﮨﮯ ﺁﺋﻤﮧ ﺳﮯ۔

42-ﮬﻢ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﺁﺋﻤﮧﺟﺲ ﭘﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ مراسمﺍﻭﺭﻋﺎﺩﺍﺕﺩﺧﯿﻠﮧﮐﻮﮐﮭﮍﺍﮐﯿﺎﮔﯿﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥﻧﮩﯿﮟ ﻻﺗﮯ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧﺯﯾﺎﺭﺕ ﻗﺒﻮﺭﺁﺋﻤﮧ،ﮔﺮﯾﺎﺍﻭﺭ ﺑﮑﺎﺀ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ عﭘﺮ، ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻨﮧ ﺯﻧﯽ ﮐﺮﻧﺎ۔ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻢ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮﺻﺎﺩﻕ ع ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:

”: ﺃﻧﻬﻢ ﻣﻮﻗﻮﻓﻮﻥﻭﻣﺤﺎﺳﺒﻮﻥ ﻭﻣﺴﺌﻮﻟﻮﻥ"

43-ﮬﻢ ﺁﺋﻤﮧ ﺳﮯﺍﺳﺘﻐﺎﺛﮧ،ﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﻧﺎ،ﯾﺎﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯ ﻧﺬﺭ ﻭ ﻧﯿﺎﺯ ﺍﻥﺳﺐ ﮐﻮ ﺷﺮﮎ سمجھتے ﮨﯿﮟﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ۔ﺍﻭﺭﺗﻤﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺎﻡ ﺟﺎﮨﻞ ﻭﮦ ﺳﺒﺎﻁ ﻟﻮﮒ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺘﮯﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻡ شیعہ ﺯﯾﺎﺭﺕﻗﺒﻮﺭ ﺁﺋﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻋﺒﺮﺕ ﺣﺎﺻﻞﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﮯﺑﺨﺸﺶ ﻭ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮﺭﺍﮦ ﺧﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﻨﮯﮐﺎ ﻋﺰﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯﮨﯿﮟ

44-ہم اپنے بھائیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مراسم عاشورا میں حد سے زیادہ بڑھنے اور مراسم مبتدعہ سے بچیں۔جو کہ تشیع کا چہرہ دنیا کے سامنے مسخ کرتا ہے اور جس پہ عمل کرنے اللہ نے کوئی دلیل نازل نہین کی۔

45-ہم ان غلاۃ سے شدت سے بے زار ہیں جو اصحاب کساء یا پنجتن کے متعلق یہ سمجھتے ہیںکہ اس کائنات کو اللہ نے خلق کیا ان ذوات کیلے، اور اس نےمخلوق کو انکے لئے خلق کیا تاکہ وہ ان پر رحم کرے اور ان کو آزمائے-

46-ہم دعوت دیتے ہیں عدم تضحیم کی باہمی اختلافات جزئی کی جو کچھ تاریخ میں ہوا صحابہ کے بیچ میں جیسے جیسا کہ حضرت فاطمہ اور ابوبکر کے درمیان فدک کا واقعہ پیش آیا۔جسے ابوبکر نے عوام کا مال سمجھ کر واپس لیا جب کہ فاطمہ زہراء کہتی تھی کہ میرے والد نے مجھے دیا ہے۔تو یہ جزئی شخصی اختلافات ہیں اور ہم ان اختلافات کو حل اور دور کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

47- ہم جیسا کہ ہم دعوت دیتے ہیں اپنے بھاہیوں کو کہ وہ قصہ ہجوم بیت فاطمہ کو ترک کریں،اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت علی ع سے زبردستی بیعت لینے کیلے اور آپ کو ابوبکر کی بیعت پہ مجبور کرنے کیلے حضرت عمر نے حضرت فاطمہ ع کے گھر کو جلا دیا یا دھمکی دی۔یا آپ نے آگ لگائی تو دروازہ گر کرفاطمہ زہراء کچل دیا جس سے جنین میں موجود محسن کی سقط ہوئی۔اور فاطمۃ الزھرائ اسی سبب فوت ہو گئیں ،اس(فرضی) واقعہ کو ھر سال مرچ مسالہ ڈال کر لوگوں کو مشتعل کرنا،اور اقامہ مجالس عزاء اور سینہ کوبی اور اس کے ساتھ لعنت اور سب کرنا۔اور لوگوں کے جذبات کو ابھارنا جب کہ تاریخ سے یہ واقعہ ثابت ہی نہیں۔اور ایسا واقعہ کے ہونے کو عقل تسلیم نہیں کرتا۔اور ایسا کہنا کہ یہ واقعہ ہوا تو حضرت عمر سے پہلے خود علی ع کی شان میں اس قبیل کے (فرضی)واقعہ دراصل عمر سے زیادہ علی کی برائی ظاہر کرتا ہے۔

48-"ﮨﻢ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ کہ ﺍﻟﻠﮧ کے گھر یعنی ﻣﺴﺎﺟﺪ کو فرقوں کے ادارے کے طور پر ( کہ جس میں فرقہ کا رنگ نمایاں ھو) نہ چلایا جائے،ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﮯ ﮐﮭﻮﻻ ﺟﺎﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ھم ﯾﮧ دعوت دیتے ھیں کہ شیعہ ﻭ سنی امام ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ مشترکہ نماز پڑھی جائے۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ کسی ﺍﺳﺘﺜﻨﺎﺀ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﻨﮓ ﻧﻈﺮ ﻓﺘﺎؤوں کا ﺳﺪ ﺑﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ مسلک یاﻓﺮﻗﮧ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔"

49- ہم دعوت دیتے ہیں تفرقہ اور secterian کو ختم کرنے کی ،مختلف فرقوںکے بیچ ازدواج(شادی) کے ذریعے۔اور ان فتاوں کے سد باب کی جو فرقوں کے درمیان ازدواج(شادی) حرام کہتے ہیں ان کے سد باب کی۔

50-اسی طرح ہم اپنے تمام برادران اہل سنت اور دیگر اسلامی فرقوں کو دعوت دیتے ہین کہ وہ وسعت نظری کو فروغ دیں اپنے شیعہ بھائیوں کے متعلق۔اور ان میں سے اکثر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔اور ان میں سے معتدل اور غلات کے درمیان فرق کرنا سیکھیں۔اور ان پر سابقین(پہلے زمانے کے) یا گزشتہ اور شاذ اقوال کی وجہ سے فتوی لگانے سے گریز کریں۔اور ان اقوال کے جدید دور میں وقوع ہونے پر نظر ثانی کرین۔اور ملاحظہ کریں فکری اور سیاسی تطورات کو جو کہ ان کے صفوں میں حاصل و تحصل ہوا۔اور اس کی تائید کہ انہوں نے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں ۔اور وہ بڑھ گئے ہیں اس راستے میں کہ وہ اپنے ممالک کو طاغوت اور سرکشوں اور استعمار سے آزاد کرنے میں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين،

اللہ سے ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے دین کی خدمت کی توفیق دے
اور مسلمانوں کو متحد کرے اور ان کو سربلندی عطا فرمائے طاغوت کے پنجوں سے آزادی دے کر۔. إنه سميع مجيب.

أحمد الكاتب

1 محرم الحرام 1430 ہجری بمطابق 29/12/2008

ترجمہ و ترتیب:بی ایم این بلتستانی

آیت الله برقعی روضه خوانی کو حرام سمجھتے تھے



"آیت اللہ برقعی ایک مرتبہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں آقای فلسفی سے ملاقات ہوئی،چنانچہ آقای فلسفی نے برقعی کو گاڑی میں بٹھایا،گفتگو کے دوران آقای فلسفی نے برقعی سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو روضہ خوانی حرام ہے؟

برقعی نے کہا:

میں یقینا کہتا ہوں کہ روضہ خوانی حرام ہے،اس کیلے امداد اور پیسے دینا حرام ہے ۔
آقای فلسفی:
کس لئے حرام ہے؟
برقعی:
میں نے کہا کہ روضہ خوانی میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سب قرآن کے خلاف ہیں اور حقیقت میں یہ پیغمبر و آئمہ ع سے دشمنی کرنا ہے۔

ﺁﻗﺎﻱ ﻓﻠﺴﻔﻲ : کیا میرے لئے بھی! اور پوچھا کہ کیا ان کے منبر بھی حرام ہیں؟
برقعی:یقینا حرام ہے
فلسفی: کس لئے

میں نے ان کو سمجھانے کیلے کہا کہ آقای فلسفی کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک دن عاشورائ کے ایام میں آپ بازار میں منبر پر تھے؟؟

کہا:ہاں بے شک تھا

برقعی: اسی روز میں بازار چلا گیا تھا جب میں نے آپ کی آواز سنی تو میں نے پہچان لیا اور آپ کی گفتگو سننے کیلے کھڑا ہو گیا۔
اور میں نے سنا آپ کہ رہے تھے امام کو ماں کی پیٹ میں غیب کا علم ہوتا ہے ہر چیز جانتا ہے؟

فلسفی: بے شک ایسا ہماری احادیث میں آیا ہے،فلسفی کا مقصد وہ اھادیث جو ﻋﻠﻢ ﺍﻣﺎﻡﻗﺒﻞ ﺍﺯ ﺗﻮﻟﺪ ہے وہی تھا کہ آئمہ نور کے ستونون سے ہر چیز دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

میں نے کہا اولا یہ بات قرآن سے متصادم ہے جہاں فرمایا:

»ﻭﺍﻟﻠﻪﺃﺧﺮﺟﻜﻢ ﻣﻦ ﺑﻄﻮﻥﺃﻣﻬﺎﺗﻜﻢ ﻻ ﺗﻌﻠﻤﻮﻥ ﺷﻴﺌﺎ]21 [ = ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﺷﻤﺎ ﺭﺍ ﺩﺭﺣﺎﻟﻲ ﻛﻪ ﻫﻴﭻ ﭼﻴﺰﻧﻤﻲﺩﺍﻧﺴﺘﻴﺪ، ﺍﺯ ﺷﻜﻢﻣﺎﺩﺭﺍﻧﺘﺎﻥ ﺧﺎﺭﺝ ﺳﺎﺧﺖ «.

ﺛﺎﻧﻴﺎ اسی منبر پہ آُپ نے  ﺻﺤﺮﺍﻱﻛﺮﺑﻼ سے متعلق بتایا کہ جس وقت ﻛﻪ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻴﻦ)ﻉ   ﻛﻮﻓﻪ کی طرف ایک راستہ سے آنا چاہا تو ، ﺣﺮ ان کی راہ میں پہنچا اور  امام کو کوفہ پہنچنے سے روکنے لگے۔ امام نے اس صورتحال کو دیکھ کر دوسرا رستہ اختیار کر لیا جہاں اس راستہ کو چھوڑ کر جہان حر مانع ہوا۔یہان تک کہ ایک جگہ پہنچا جہان امام کے گھورے نے قدم اٹھانا چھوڑ دیا۔امام نے گھورے کو مارا اور بہت کوشش کی لیکن گھورا آگے نہیں برھا،اور حرکت نہیں کی۔امام حیران ہوا کہ آخر یہ گھوڑا آگے حرکت کیوں نہیں کرتا امام کو ایک عربی وہن ملا تو اس کو آواز دی اور اس سے پوچھا :اس زمین کا  ﻧﺎﻡکیا ہے؟ ﻋﺮﺏ  نے ﺟﻮﺍﺏ دیاﻏﺎﺿﺮﻳﻪ )ﻗﺎﺫﺭﻳﻪ (، ﺍﻣﺎﻡﺣﺴﻴﻦ )ﻉ نے  ( ﺳﺆﺍﻝ کیا:ﺩﻳﮕﺮ کیا  نام ہےﺍ؟: ﺷﺎﻃﻲﺀﺍﻟﻔﺮﺍﺕ، ﺍﻣﺎﻡ  نے پوچھا :ﺩﻳﮕﺮ ﭼﻪ ﺍﺳﻤﻲﺩﺍﺭﺩ؟ﮔﻔﺖ: ﻧﻴﻨﻮﺍ، ﺍﻣﺎﻡ ﭘﺮﺳﻴﺪ:ﺩﻳﮕﺮ ﭼﻪ ﺍﺳﻤﻲﺩﺍﺭﺩ؟ﮔﻔﺖ: ﻛﺮﺑﻼ، ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻴﻦ)ﻉ ( نے فرمایا: ہاں میں نے اپنے نانا سے سنا ہے کہ فرمایا:
 تمہاری خوابگاہ کربلا ہے۔

اس کے بعد میں نے فلسفی سے پوچھا:
آقای فلسفی یہ ایک امام جن کے بارے میں آپ منبر پر کہ رہے تھے کہ ہر چیز کو جانتا ہے مان کی پیٹ سے ہی،اور قرآن پڑھتا ہے(بغیر معلم کے)،کیسے ایسا ہو گیا کہ امام سے پہلے اس کے گھوڑے کو معلوم ہوا کہ یہ سر زمین کونسی ہے؟اور امام کو بعد میں؟
یہاں تک کہ امام کو ایک عربی سے پوچھنا پرا کہ یہ کونسی جگہ ہے؟

  ﺟﻨﺎﺏ ﻓﻠﺴﻔﻲ  یہ کیسا امام آپ نے گھڑہ لیا ہے ﻛﻪ ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﻪ اس سے قبل اس کا گھورا مطلع ہوتا ہے؟
کیا یہی حب آئمہ ہے؟

کیا یہی معارف اسلام ہے؟ کیوں آپ احادیث پہ غور و تدبر نہیں کرتے ؟؟"

(سوانح ایام آیت اللہ برقعی قمی)

 یقینا یہ آقای فلسفی ایک بہترین واعط تھا،اور ان جیسا کوئی اہل منبر نہیں تھا جو اپنی بات کو اچھی طرھ پہنچائے۔

تکفیری گروه کون? استاد سید علی شرف الدین موسوی کا موقف

تکفیری گروہ

آپ(آغا جواد) "اور دیگر عمائدین کا تکرار اور اصرار ہے ہمارا کسی فرقے سے کوئی اختلاف نہین ،ہمارا اختلاف صرف تکفیری گروہ سے ہے۔یہ گروہ سب کو کافر کہتے ہیں ۔یہان پر آپ اور دیگر عمائدین سے سوال ہے اس وقت اس ملک میں کون تکفیری ہے اور کون سا فرقہ اس تکفیری گروہ سے بچا ہوا ہے۔سب سے پہلے جس نے دوسرون کو کافر کہنے کا فتوی دیا ہے،وہ بریلوی ہیں اس ھوالے سے آپ اھمد رضا خان صاھب کے فتویٰ دیکھ سکتے ہیں جب کہ ان سے آپ کا اتحاد ہے۔
   دوسرے نمبر پر آپ ہیں آپ نے امامت کو اصول دین مین شامل کیا،پھر اس کے منکر کو کافر کہتے ہین اور بحث و گفتگو کرنے والے کو منافق کہتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر وہابی آتے ہیں جو اپنے علاوہ سب کو کافر کہتے ہیں۔سلفی تو ہر حدیث میں ڈنڈا رکھتے ہیں جو اس کو نہیں مانتا،اسے کافر کہتے ہیں۔

آپ جن کو کافر نہیں کہتے اور جن سے اتحاد کرنا چاہتے ہیں وہ اس ملک کے سیکولر اور الحادی فکر رکھنے والے ہیں۔آپ کہتے ہیں شیعہ اور بریلوی ایک ہیں اور آپس میں ان کا اتحاد بھی ہے۔یہ بات بھی غلط ہے کیوں کہ آپ کے پاس کسی بریلوی سے اتحاد نہیں بلکہ آپ کے اتحادی قادری،بی بی اور تحریک انصاف ہیں جو سب سیکولر ہیں،جن کے پاس کوئی مذہب نہیں اور وہ اتحاد کی بات کرتے ہیں۔
    اگر آپ کسی کو قرآن و سنت نبی کی دعوت دیں تو آپ کو کوئی بھی کافر نہیں کہے گا۔لیکن آپ کو قرآن و سنت پیغمبر کی دعوت سے چڑ ہے ان سے دور بھاگتے ہین ۔جب بھی قرآن و سنت نبی کی بات ہوتی ہے تو آپ اور آپ کے علماء چیخ اٹھتے ہیں کہتے ہیں قرآن کو سب سے پہلے عمر نے اٹھایا تھا،قرآن تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آسکتا ہے، اور سنت کی بات پر بھی آپ چڑتے ہیں۔حقیقت میں اس وقت کوئی بھی فرقہ ایک دوسرے کو کافر گرداننے سے محفوظ نہیں۔سب قرآن و سنت کو چھور کر اپنا مصدر جعفر صادق ابو حنیفہ اور امام مالک و حنبل وغیرہ کو بنائے ہوئے ہیں۔حالانکہ قرآن و سنت میں ان کے قول کے حجت ہونے کا کوئی حکم نہین ہے۔اگر آپ سب قرآن و سنت کو اپنا مصدر قرار دے دیں تو یہ تکفیر خود بخود ختم ہو جائے گی۔" 

(دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی،علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی)

خلفائے راشدین کا سنهرا دور آیت الله اسد الله موسوی کی نگاه میں

اسد الله موسوی خرقانی

آیت اللہ آغاسيد اسداللہ میرسلامی موسوی معروف بہ مجتھد خارقانی اپنی کتاب "محوالموھوم 
وصحوالمعلوم(جس کو آیت اللہ طالقانی نے بھی تصحیح کے بعد شائع کیا) " صفحہ 37 پر فرماتے ھیں:

"چاروں خلفائے راشدین رسول ص کی وفات سے لے کر شھادت علی ع کے عرصہ تک (ان کی خلافت) "اولی الامر" کے مصداق تہے.کیونکہ اس عرصہ حکومت میں احکام قرآن نافذ کیے گئے.اور بیت المال کو برابر تقسیم کیا جاتا.اور خلیفہ وقت ملک کے ایک عام فقیر کی طرح اپناحصہ اس میں سے لےلیتا.اور خلیفہ وقت کا گھر سونے چاندی کی محلوں اور اسراف پر مبنی تزین وآرائش کا حامل نہیں تھا. بلکہ خلیفہ کا گھر بھی رسول ص اور اھل بیت ع کے گھروں کی مانند ھوتا تھا.بلکہ تمام مسلمانوں کے گھروں سے چندان مختلف نھیں تھا خلیفہ کا گھر.اور اللہ کے حدود کو بغیر کسی مداھنت اور مھادنت کے نافذ کیا جاتا.اور خلیفہ اور ان کے عزیز و اقارب پر ایک عام فرد مسلم کی طرح حدود کا اطلاق و نفاذ کیا جاتا."

 آیت اللہ سید اسداللہ موسوی بن سید زین العابدین الموسوی(سن پیدائش ذوالحجۃ 1254 ھجری/ 1833).

ڈاکٹر سید علی اصغر غروی موسوی کا ایک مقاله جن کی وجه سے ان کو جیل میں ڈال دیا

ایک عالم اسکالر جس کو یه مقاله لکھنے کے سبب نه صرف جیل جانا پڑا بلکه اس کے خلاف مجتھدوں نے فتوی انحراف بھی جاری کیا.
..........................



امام ایک سیاسی لیڈر یا مذہبی راہ نما

عرض ناشر

جناب ڈاکٹر سید  علی اصغر غروی کا تعلق دور حاضر کے نامور شیعہ اسکالرز اور فلاسفرز میں ہوتا ہے۔آپ جناب آیت اللہ جواد غروی  کے فرزند ارجمند ہیں۔اپنے والد محترم کی طرح آپ بھی ایک محقق اور اصلاح پسند عالم ہیں۔جس طرح آیت اللہ غروی نے مختلف  مسائل میں افراط و تفریط سے بچ کر معتدل مسلک اپنایا ہے،ڈاکٹر سید اصغر  غروی بھی اپنے والد کی اسی مشن پر کاربند ہیں۔
       جناب ڈاکٹر سید علی اصغر غروی نے امامت اور خلافت سے متعلق ایک اہم مقالہ ایک مشہور ایرانی روزنامہ "بہار" میں شایع کیا  تھا جس ک ا عنوان"امام پیشوا سیاسی یا الگوی دینی" رکھا تھا۔چنانچہ یہ  زیر نظر کتابچہ اسی مقالہ کا اردو ترجمہ ہے،جو کہ تحقیق و جستجو میں گہری دلچسپی رکھنے والے مسلمانوں کیلے ایک نایاب تحفہ ہے۔
    

غدیر خم کا واقعہ کی تفسیر شیعہ و سنی کے درمیان اسلام میں لیڈرشپ سے متعلق (کئی صدیوں سے)ایک اہم بحث و مختلف آرا کا سبب بنا ہوا ہے۔دونوں مسالک کے درمیان اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ   ﷺنے کیا فرمایا اور اس کے کیا معنی ہیں؟۔اہل سنت علماء رسول کے اس خطبہ  کو صرف رسول ﷺ  اور ان کے قریبی ساتھی علی ابن ابی طالب کے درمیان ایک"دوستی کا اعلان" قرار دیتے ہیں جب کہ اہل تشیع علماء اس کو  ایک ایسا موقع و مقام قرار دیتے ہیں کہ جہاں رسول اللہ  ﷺ نے تمام مسلمانوں کے سامنے واضح الفاظ میں خود   اپنے ہاتھوں خلافت علی کو دی (خلافت علی بید النبی) کہ  یہ علی کا حق ہے ۔
      آج ایران میں علماء کے حامی اور اقتدار میں موجود علماء غدیر خم کی تفسیر کو اسلامی حکومت(ملائیت) کے حق میں اور جمہوریت کی مذمت کرنے کیلے استعمال کر رہے 
ہیں۔ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ محمدﷺ  آخری نبی ہیں۔

آج 1400 ان کی وفات کو سال ہوئے ہیں ،ان کی عدم 
موجودگی کی وجہ سے ہمیں دشواریوں اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ان کے لبوں کاہمیشہ کیلے  بند ہونے(موت) کا مطلب ہم انسانوں کیلے براہ راست  آسمانی وحی کا ختم ہونا ہے۔بے شک اللہ اپنے بندوں کی صراط مستقیم کی طرف  مسلسل اور  کسی وقفے کے بغیرراہنمائی کرتا ہے۔ لیکن ہمارے وجود کی حقیقت اور انسانوں کی سعادت سے متعلق براہ راست وحی  کےاس دور کا(نبی ﷺ کی وفات کی وجہ سے) اب خاتمہ ہوا۔اب رسول  ﷺکے آخری کلمات سے متعلق  ماگنی چوڈ واضح ہیں۔اس کی روشنی میں آپ  ﷺ کا غدیر خم پر آخری خطبے کو بہت سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا  چاہیے۔اس لیے کہ یہ خطبہ صدیوں سے ایک اہم موضوع بحث  ہے اور مختلف نقطہ ہائے نظر کی یہ بنیاد ہے۔یہ مضمون بھی اسی طرح کا ایک جائزہ اور نقطہ نظر ہے۔

قرآن مجید کا ایک بنیادی سبق (مرکزی خیال) یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے رسول ﷺ  اور ان کے پیروکاروں سے کہتا ہے کہ وہ امامت و پیشوائی(راہبری) اور امت(قوم) کو  تشکیل دے۔ایک امت ایک قوم ہے جو کہ زندگی کے معنی سے متعلق ایک ہی رائے رکھتے ہوں ،اور وہ ایک  ہی امام یا لیڈر کی پیروی کریں۔قرآن کے مطابق حضرت ابراہیم وہ پہلے شخص ہیں جنہون نے  برملا توحید کا اعلان کیا اور ایک  امت انہون نے تشکیل دی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے  لوگوں کاایک ایسا گروہ(ملت) جمع کیا ،جن کا دنیا  دنیا سے متعلق نظریہ ہم آہنگ تھا۔ابراہیم کی امت کے لوگ اپنی دنیوی خوبیوں اور ملت کے لحاظ  سے اور  اپنے اقدار،سلوک اور مقاصد کے لحاظ سےایک متحد اور یکجا گروہ کے ساتھی تھے۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
"      اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے آزمایا چند کلمات کے ساتھ،پس جب پورا کیا ان کو،کہا،تحقیق میں تمہیں لوگون کے واسطے امام بنانے والا ہوں،کہا  میری اولاد میں سے بھی،اللہ نے کہا  نہیں پہنچے گا میرا عہد  ظالموں کو "سورہ بقرہ آیت 134۔
اللہ نے ابراہیم کو منتخب کیا ،اس لیے کہ انہوں نے اپنے کلمات کو عملی جامہ پہنایا،اور اللہ نے فرمایا:
"میں تمہیں ان کا امام بناؤں گا"۔
ہم اس آیت کے متن سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کلمات ظاہر کرنے کے بعد معاشرے کی راہنمائی کیلے جن چیزون کی ضرورت تھی اللہ کی طرف سے ابراہیم  ؑکو   وہ عطا کیے ،اس کے بعد وہ لوگون میں بطور امام اپنا فرض ادا کرنے لگے۔ 
         ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ  اللہ تعالی  نے ابراہیم کو جو لیڈشپ(امامت) عطا کی، کیا وہ امامت  ملک کی سیاسی راہنمائی(پولیٹیکل لیڈرشپ) کیلے دی تھی؟
     اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہم   قرآن کی اس   آیت کا حوالہ دیتے ہیں جس سے  متعلق مختلف شیعہ علماء کی رائے یہ ہے کہ غدیر خم کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی،جس     میں  یہ بات  واضح تھی کہ علی ہی آپ کے بعد خلیفہ یا جانشین ہوں گے۔
   "الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔"سورہ 5،آیت 3۔
                  کیا قرآن کی اس آیت کی یہ تفسیر قابل قبول ہے؟ذیل میں ہم اس سوال کا جواب  دینے کیلے مختلف زاویوں سے تحقیق کرتے ہیں :
1-اس آیت سے پہلے اور اس کے بعد والی آیات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نے رسول  ﷺ کی ذمہ داری(فرض) یہ لگائی کہآپ لوگوں تک  مکمل اور صحیح انداز میں وحی پہنچا دیں۔اور آپ ﷺ  کو کسی دھمکی  کی وجہ سے اپنے مقصد(مشن) سے باز نہیں آنا چاہیے،آپ کو کافرون کی سرکشی یا بغاوت کی وجہ سے پریشان یا  غم زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ "مکمل طرفداری(فیور) اور نعمت" جس کا ذکر اللہ کی طف سے نازل کردہ اس آیت میں   ہوا ہے اس سے مراد قرآن ہے۔اور اس قرآن کی مکمل سمجھ اور فہم یعنی اسلام۔جب لوگوں تک  وحی (قرآن و اسلام) بغیر کسی تحریف اور نقسان کے پہنچا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعمت مکمل ہو گیا۔
2-اگر یہ صحیح ہے کہ "اے رسول پہنچا دے جو کچھ اتارا گیا ہے تیری طرف  تیرے پروردگار کی طرف سے ،اگر تو نے ایسا نہیں کیا تو تو نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔اور اللہ تجھ کو لوگوں سے بچا دے گا۔تحقیق اللہ ہدایت نہیں کرتا کافر قوم کو "سورہ 5،آیت 67-
      اس کا مطلب  اگرحضرت کی جان نشینی یا خلافت ہے،تو اوپر کی آیت ("الیوم اکملت۔۔۔)کو فورا اس آیت کے بعد نازل ہونا چاہےتھا،کیونکہ اللہ دانا(بصیر) ہے اور  کوئی تاخیر اس آیت کے بعد نہیں ہونی چاہیے تھی(یعنی ان آیات کومربوط ہونا چاہے تھا)۔
3-عام طور پر قرآن  کی وہ آیات جو کہ اہم منصب عطا کرنے سے متعلق ہوں ان کو واضح اور خاص ہونا چاہیے،جو واضح منطق(ریزن) پر مشتمل ہو۔بصورت دیگر یہ عبارت کو غیر مربوط ہونے کا سبب بنتا ہے۔اگر ہم اس آیت کو کسی سیاسی تقرری سے مساوی قرار دیں ،تو یہ دوسری آیت سے غیر مربوط ہے،جہاں رسول  ﷺ سے کہا گیا ہے کہ لوگوں کے کام  اور  معاملات میں ان سے مشورہ کیا جائے۔"اور ان سے  مصلحت(مشورہ)کر امور(کاموں) میں"سورہ 3 آیت 159۔  اور  "اور وہ لوگ کہ قبول کیا انہوں نے اپنے پروردگار کیلے اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے درمیان کام مشاورت(مشورہ) سے ہوتے ہیں  اور جو  چیز ہم نے ان کو دی ہے اس مین سے خرچ کرتے ہیں"سورہ 42: آیت 38۔
4-امام علی  نہج البلاغہ کے خطبات  میں بار بار اس نکتہ کو دہراتے ہیں کہ سیاسی نظم و نسق لوگوں کے بیعت اور ان کی رائے  سے منخب کیا جائے۔امام علی نے معاویہ کو لکھا(جیسا کہ نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 6 مین ہے):
  میری بیعت کی انہی لوگوں نے جنہوں نے بیعت کی ابوبکر و عمر و عثمان کی، اسی اصول کی بنیاد پر جس پر ان کی بیعت کی تھی۔ لہذا اس اصول کے لحاظ سے موقع پر موجود رہنے والے کو دوبارہ نظرِ ثانی کا حق نہ تھا اور نہ ایسے شخص کو جو موجود نہ تھا اس فیصلہ کے مسترد کرنے کا حق پیدا ہو سکتا ہے اور شوریٰ مہاجرین و انصار کے ساتھ مخصوص ہے۔،،،،،،،۔
  "۔
    علی کے یہ الفاظ  بے شک یہ ظاہر کرتا ہے کہ خلافت  کوئی ایسی چیز نہیں  کہ  اس خلیفہ کو اللہ کی طرف سے انتصاب(اپوائنمنٹ) ہو بلکہ رسول اللہ کا سیاسی جانشین یا خلیفہ لوگ ہی منتخب کریں گے۔
 5-امام علی نے  کبھی خلافت و حکمرانی سے متعلق یہ دعوی نہیں کیا کہ  رسول اللہ نے ان کیلے اس خدائی حق کا اعلان کیا ہو۔یہاں تک کہ جہاں کہیں وہ اپنا حق خلافت طاہر کرتا ہے،تو اس منصب کیلے اپنی صلاحیت کو بنیاد بناتا ہے،اور  لوگوں کو" آگاہ" کرتا ہے کہ ان  کیلے ایک حق انتخاب ہے۔علی کے تمام خطبات جو نہج البلاغہ میں بیان ہوئے ہیں ان میں  انتخاب اور آگاہی سے متعلق ہے۔یہ اتنا واضح ہے کہ علی کی نظر میں حکمرانی(گورنمنٹ) کیا ہے۔ہم مزید اس بات کو 25 سال کے اس  سیاسی  ابتری کےعرصہ میں  اور پانچ سالہ  ایک سیاسی لیڈر کے طور پر   دیکھ سکتے ہین اگر ہم آپ کے کردار اور الفاظ پر غور کرتے ہیں۔
 6-جیسا کہ یہ بہت سی تاریخی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی ہے کہ تینوں خلفاء ،خاص طور پر ابو بکر و عمر کے  ساتھ ، علی کا  رویہ  یہ واضح کرتا ہے کہ علی نے ان لوگوں کے ساتھ کبھی ایسا سلوک نہیں کیا کہ انہوں(خلفاء)  نے رسول اللہ کے باتوں کا لحاظ نہیں کیا اور حکومت غصب کر لیا۔ آپ کا خلفاء کے ساتھ شاندار تعاون  جس کا ذکر آپ نے بار بار کیا ہے، یہ ایسی ہمدردی  کو  ظاہر کرتا ہےجس کے بارے میں  کسی شک  و شبہ کی گنجائش نہیں۔
 مثلا کتاب الغارات جس کے مصنف ثقفی ایک شیعہ عالم ہیں،اس میں امام علی سے ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں:
"جب محمد ص نے اپنا فرض ادا کیا،تو اللہ تعالی نے آپ کو دنیا فانی سے اپنی طرف ابدی دنیا  میں  بلا لیا،پھر آپ کے بعد مسلمانوں نے ایسے لوگوں کی جانیشی اختیار کی ،جو کہ شائستہ امیر تھے،اور ان امیروں نے قرآن و سنت کے مطابق عمل کیا۔اور انہوں نے اپنے معاملات کو درستی سے ادا کیا،اور کبھی بھی  رسول اللہ کی سنت و احادیث سے تجاوز نہیں کیا۔پھر اللہ نے ان  کو فوت کیا،اللہ کی رحمت ہو ان دونوں پر"۔
7- اگر امام علی کو اس بات پر ایمان و  یقین ہوتا کہ اللہ نے ان کو رسول اللہ کے بعد خلافت دی ہے،تو ہم   اس بات کو ان کے  شجاعت و بہادری،ہمت و شہامت اور عدالت و انصاف سے متعلق   شہرت کے منافی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا شمشیر نیام سے  نکال کر خدا تعالی کے احکام کو نافذ نہیں کیا۔کیا یہ بات ایسے شخص سے متعلق    نادرست نہیں کہ جو دروازہ علم و حکمت  ہے کہ وہ اپنا دفاع کرنے سے ہچکچائے۔
8-  اگر ہم  اما م علی کے ان خدشات پر  جو انہون نے حکومت یا گورنمنٹ سے متعلق  ایک تبصرہ کے طور پرظاہر کیے وہ بھی بہت سی تاریخی کتب اور نھج البلاغہ مین بھی موجود ہے۔یہ طاہر کرتا ہے کہ آپ کے اعتراضات  جو آپ نے فرمائے وہ صرف حکمرانی کے انتخاب کو محدود کرنے پر  احتجاج تھا-آپ اس بات پر فکرمند تھے کہ خلیفہ یا کوئی شخص  اپنے اختیارات یا حد سے تجاوز کرے گا۔جیسا کہ آپ کو پسند نہیں تھا کہ ایک خلیفہ  خود مقرر کرے ،یا ایسا انداز اختیار کرے کہ مخصوص آدمی منتخب ہو۔علی کا احتجاج اس قسم کے سازشوں کے خلاف تھا۔یہ بالکل اسی طرح ہے جسے ہم آج کل ایران میں  مینیجڈ الیکشن کے نام سے دیکھتے ہیں۔
  آپ اس بات پر احتجاج نہیں کرتے تھے کہ سقیفہ والوں نے  آپ کو منتخب نہیں کیا بلکہ آپ کا احتجاج  انتخاب کو محدود لوگوں تک خاص کرنے پر تھا۔اور ان شرائط کے خلاف جو خلیفہ منتخب ہونے کیلے رکھے گئے۔تاکہ آپ لوگوں کا امیدوار نہ بن سکیں۔ہم علی کے الفاظ سے واضح طور پر یہ جان سکتے ہیں کہ  آپ کا احتجاج لوگوں کو رائے دینے سے متعلق محدود آزادی دینے کے  خلاف تھا۔
       اوپر کے 8 نکات مختصرا بیان کئے گئے ہیں۔لیکن یہ طاہر ہوتا ہے کہ اتمام نعمت  سے مراد اس آیت میں حکومت(خلافت) یا دنیوی پیشوائی نہیں بلکہ رسول اللہ پر وحی کی مکمل ہونے  اور بعثت و نزول قرآن کے مکمل ہونے  اور بغیر کسی کم و کاست کے قرآن اور وحی کا لوگوں تک پہنچنا مراد ہے۔یہ کامل اور تمام قرآن لوگوں کیلے  امام اور امت مسلمہ کیلے پیشوا اور راہنما ہے۔ یہی ایک جیسی چیز ابراہیم کیلے مکمل کیا گیا۔ابراہیم بھی لوگوں کیلے امام اور اسوہ ملت بنے کیونکہ اس پر نعمتیں پوری ہوئیں۔مسلمانوں پر نعمت مکمل اس طرح ہوئی کہ انہوں نے رسول اللہ کی بعثت اور قرآن کو مکمل حاصل کرلیا۔اس لیئ ان کو اس پر لازمی طور پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔رسول اللہ کا اسوہ حسنہ اور قرآن مجید  پر عمل کر کے فکر اور عمل میں دوسرے اقوام کیلے ایک ماڈل بن گئے۔
امام علی نے پوری کوشش کی کہ قرآن اور اس کے اصولوں پر عمل پیرا ہو۔شیک محمد عبدہ ،جب علی کے خیالات اور ان کے اخلاق  سے متعلق ایک عملی نمونہ قرار دیا۔ہماری بدقسمتی ہے،کہ ایک روایت جو کہ امام علی سے بیان کی جاتی ہے وہ اس طرح ہے:
"میرے شیعہ قرآن کو امام تصور کرنے کی بجائے اپنے آپ کو کتاب(قرآن) کا امام  سمجھتے ہیں"۔
       علی کی خواہش کے برعکس وہ(شیعہ) جہالت کے غلام بن گئے ،اور اس کے حقوق کو روندا،وہ اس لئے چیختے ہیں کہ دنیا کی چند دنوں کی  گورنمنٹ میں کوئی پوزیشن حاصل کر سکیں۔وہ عہدہ(حکومت) کہ جس سے متعلق علی کا ارشاد ہے کہ "ایک بکری کی چھینک"ہے۔!کیا بکری کی چھینک سے کم قدر و قیمت والی چیز(خلافت) اللہ  کی عظیم نعمت ہو سکتی ہے؟؟کیا یہ خلافت اللہ کی نعمتوں کا اتمام اور اس (اللہ کے) مذہب کا مکمل ہونا قرار دیا جا سکتا ہے۔؟؟
  امام علی نے ہمیں ایسے دنوں سے ڈرایا ہے کہ جب

"وَ اِنَّہُ سَیَأتِی عَلَیکُمْ مِن بَعدِی زَمَانٌ لَیسَ فِیہِ شَیءٌ أَخْفَیٰ مِنَ الْحَقِّ وَ لا أَظْہَرَ مِنَ الْبَاطِلِ وَ لااَکْثَرَ مِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ وَ لَیسَ عِندَ أَہلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَۃٌ اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِہِ وَ لا أَنفَقَ مِنہُ اِذَا حُرِّفَ عَن مَوَاضِعِہِ وَ لا فِی الْبِلادِ شَیءٌ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعرُوفِ وَ لا أَعرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ فَقَد نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُہُ وَ تَنَاسَاہُ حَفَظَتُہُ فَالْکِتَابُ یَومَئِذٍ وَ اَہْلُہُ طَرِیدَانِ مَنفِیَّانِ وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِی طَرِیقٍ وَاحِد ٍ لا یُؤوِیہِمَا مُؤوٍ فَالْکِتَابُ وَ اَہْلُہُ فِی ذَالِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیہِم وَ مَعَہُمْ وَ لَیْسَا مَعَہُمْ لِاَنَّ الضَّلالَۃَ لاتُوَافِقُ الْہُدَیٰ وَ اِنِ اجْتَمَعَا فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلٰی الْفُرْقَۃِ وَافْتَرَقُوْا عَلیٰ الْجَمَاعَۃِ کَأَنَّہُم أَئِمَّۃُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ إِمَامَہُمْ''١؎
یقینا میرے بعد تمھارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ نمایاں نہ ہوگی، سب سے زیادہ رواج خدا اور رسول (ص) پر افتراء کا ہوگا اور اس زمانے والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس سے زیادہ کوئی فائدہ مند بضاعت نہ ہوگی اگر اس کے مفاہیم کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے، شہروں میں ''منکَر'' سے زیادہ معروف اور ''معروف'' سے زیادہ منکَرکچھ نہ ہوگا، حاملان کتاب کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن قرآن کو بھلادیں گے، کتاب اور اس کے واقعی اہل، شہر بدر کردیئے جائیں گے اور دونوں ایک ہی راستہ پر اس طرح چلیں گے کہ کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا، کتاب اور اہل کتاب اس دور میں لوگوں کے درمیان رہیں گے لیکن واقعاً نہ رہیں گے، انھیں کے ساتھ رہیں گے لیکن حقیقتاً الگ رہیں گے، اس لئے کہ گمراہی، ہدایت کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے چاہے دونوں ایک ہی مقام پر رہیں، لوگوں نے افتراق پر اتحاد اوراتحاد پر افتراق کرلیا ہے جیسے یہی قرآن کے امام اور پیشوا ہیں اور قرآن ان کا امام و پیشوا نہیں ہے''۔
.
    اس بات کا یقین نہیں آتا کہ  کس طرح علی کے شیعوں نے اس کے خطبات کو فراموش کر دیا،جو کہ ایک ذریعہ ہے  قرآن کو مضبوطی سے تھامنے   و فکر کر کے اسے سمجھے  کا،اور بجائے اس کے کہ قرآن میں غورا ور اس پر عمل کیا جائے، اور اٰس کے اصولوں کو اپنایا جائے،انہوں نے اپنے غلط اور نامکمل  تفسیر  اور تشریح  کیلے علی کا نام استعمال کرتے ہیں،اور اس کو افسانوں اور قصوں کے ساتھ خلط ملط کر کے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلاتے ہیں۔اور  علی سے محبت کے نام پر ایک عظیم نا انصافی  کے مرتکب ہیں۔وہ جو خدا کے راستے پر تھے اور انسانیت کیلے ایک ہیرے کی مانند ہے۔امام علی سے مشابہت کے بغیر وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں۔اور ان کی شفاعت کے منتظر ہیں کہ روز قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے۔بے شک یہ کوئی نئی  بات نہیں۔کچھ ہی لوگ تھے جو ان کی زندگی  میں ان کے کردار اور طریقہ زندگی پر عمل کرتے ے تھے۔ہم علی کے خطبات و مکتوبات سے سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے خلافت کے دورمیں کہ جب وہ حکمران بنے اور بیعت کے بعد۔ان کو معلوم ہوا کہ لوگ اصل انصاف کو نافذ کرنے کو پسند نہیں کریں گے۔اس لیے آپ نے اپنے ان شیعوں کی شکایت کی جو کہ علی کا نام تو پسند کرتے ہیں لیکن ان کے کردار کی پیروی کو پسند نہیں  کرتے۔کون توقع کر سکتا تھا کہ علی کے الفاظ و کلمات کو استعمال کیا جائے گا صرف فائدہ اور سیاسی طاقت اور پاور حاصل کرنے کیلے؟کس طرح علی کے رویہ کو حکومت سنبھالنے اور فوائد حاصل کرنے کیلے  استعمال کریں گے،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب آپ خلیفہ تھے،آپ جانتے تھے کہ خوارج نے ہی ابن ملجم کو آپ کو قتل کرنے کیلے بھیجا ہے لیکن علی نے پہلے سے حفظ ما تقدم کے طور پر ملزم کو سزا دینے اور قبل ارتکاب جرم سزا نہیں دیا۔
علی امام ہے،علیہ الصلوۃ والسلام،اور ان کا اہم کردار امام ہونا ہے،اور یہ کردار ہر دور کے لیڈر کیلے ایک مثالی نمونہ ہے۔ان کو صرف ایک سیاسی حکمران کی حد تک محدود نہیں کیا جانا چاہیے کچھ لوگوں کیلے اور کچھ دنوں کیلے بلکہایک کم مدت مسلمان ہونے کی حیثیت سے علی ایک مثال اور نمونہ ہے پوری انسانیت کیلے۔یہ ایک بڑے لیڈرشپ کا مینٹل ہے۔،۔ان کے اصل کردار کے سامنے خلافت ایک بے وقعت چیز ہے۔تاریخ کے تمام ادوار کے حکمرانوں کیلے علی ایک مثال اور نمونہ تھا۔اور  وہ اپنی قربانی تک دیتے رہے۔علی پہلا اور مقدم امام ہے،آپ اخلاقیات،عزت وقار،آزادی انصاف اور انسانیت کے امام ہیں۔علی جس کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ جو راستہ قرآن نے معین کیا ہے اس کو بیان کرے۔اور وہ راستہ جو اللہ نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہے۔ان کا ذہن کبی بھی خلافت یا دنیوی حکمرانی کیلے مائل نہیں ہوا وہ حکمرانی(خلافت) جسے آپ گوشت ۔۔۔۔۔۔۔کہتے تھے۔آپ اپنے آپ کو  وحی کا عملی نمونہ بنانے کیلے تابعدار رہے۔علی ایک ایسے امت کا امام ہونے کا خواہاں تھا کہ جس کی نعمتیں مکمل ہوتی ہیں اس      پیغام کو نافذ کر کے۔

یہ اسی لیے علی تمام مسلمانوں  شیعہ و سنی میں ایک معزز شخصیت ہیں،اور ساتھ ہی غیر مسلموں کی نظر میں بھی،جو تسلیم کرتے ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ علی منفرد خصوصیات کے حامل تھے۔علی نے اپنا کردار اور رول ادا کیا اور امام و نمونہ بنے تمام اقوام کیلے۔1974 کے ایک خطبہ جمعہ میں،مرحوم حکیم علامہ غروی نے علی کے بارے میں کہا کہ"اسلام کی تکمیل کے سلسلے میں ایک اہم سبب  بنے والی شخصیت کیونکہ امام علی کا کردار یہی تھا کہ آپ اسلام کے بنیادی  نظریات کی تشریح کرتے اور اس کو برقرار رکھتے۔
انہوں نے کہا:
"علی  نے  ملت اسلامیہ میں انصاف اور مساوات کو صحیح معنوں میں ہر لحاظ سے قائم کیا۔اور انہوں نے  سوچنے کی آزادی دی تاکہ لوگ آزادانہ طور پر  کسی کی بیعت اور اس پر اعتماد کے سلسلے میں رائے دیں۔ان کا وژن یہی تھا کہ لوگوں کی حکمرانی کیلے حکمران لوگ ہی منتخب کریں ۔اور یہ علی کے اسلام کی ایک خصوصیت ہے۔علی نے اسلام کا یہ اصول لاگو کیا،ان کے  پلان اور ان کے کام محفوظ ہیں،ان کے خطبات  لکھی ہوئی ہیں۔اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہر چیز مکمل ہے اور علی آخری وجہ ہے اسلام کی تکمیل کیلے۔
یقینا،یہ بے مثال انسان رسول اللہ کی جانب سے تعریف کا حق رکھتا ہے"من کنت مولاہ۔۔۔۔۔۔"پھر آپ نے علی کا ھاتھ تھاما اور فرمایا:
" من کنت مولاہ فھذا علی علیہ السلام مولا. فمن کنت مولاہ فھذا علی مولا ہ اللھم وال من والاہ وعادمن عاداہ "۔کتاب الکافی جز 4،صفحہ 65
   اب ،ہم پہلی آیت کو جسے ابراہیم سے متعلق قرار دیا تھا،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ابراہیم بھی امام بنے جب خدا کے کلمات پر پورا اترے،اس کا مطلب یہ ہو کہ  ایک انسان ایک مقام پر پہنچتا ہے کہ جب وہ اللہ کے پیغام کو عملی طور پر دکھاتا ہے،تو وہ (خلیفۃ اللہ) اللہ کا نمائندہ بنتا ہے،اور پھر اسی وقت ہی امام بننا ممکن ہے۔
    علی  اس وقت امام نبے جب انہوں نے اللہ کے کلمات اور اس کے  فرائض کو پورا کیا۔اللہ کے قابل ستائش خوبیوں کو بیان کیا۔صرف 5 سال کیلے نہیں بلکہ تمام ادوار کے لوگوں کیلے۔،ہر وقت کے انسانوں کیلے اور ہمیشہ کیلے۔اور یہی عظیم امامت ہے۔کوئی بھی شخص جو قرآن کو امام بنائے اور اس سے تمسک کرے وہ لوگوں کا امام اور مثالی نمونہ یا ماڈل؛ بن سکتا ہے-
     "  اور اللہ کے واسطے ویسی ہی محنت کرو جیسی کہ چاہیے اس نے تم کو پسند کیا اور دین میں تم پر کچھ مشکل نہیں رکھی تمہارے باپ کا دین اسی نے تمہارا نام پہلے سے مسلمان رکھا اور اس قرآن میں تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر ۔(الحج  آیت 78)۔ زعامت کبری(عظیم حکمرانی) کا مطلب صرف یہی ہے کہ قیامت تک دوام ہو۔کیا اسی لیڈر شپ میں جو علی ابن ابی طالب کا ہے جو کہ ایک مکمل اور صحیھ نمونہ ہے۔اس خلافت اور سیاسی لیڈرشپ میں کوئی مماثلت ہے؟کیا لفظ امام کے استعمال میں   شکوک و شبہات کی وجہ ھق سے انحراف نہیں۔؟(کتاب چند گفتار-سید محمد جواد موسوی غروی)
       اس بحث کا مختصر خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ ایک حکومت یا امارت کو چلانے کیلے جانشین یا خلیفہ منتخب کرنا  وہ کسی رسول کا فرض یا ان کی ڈیوٹی نہیں حتی کہ محمد ص کا بھی یہ فرض نہیں(کہ خود خلیفہ منتخب کرے)۔انبیاء خاص کر محمد ص کا مشن یہ ہے۔ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( 157 ) 
وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں
 (7:157) ۔ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( 158 ) 
(اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پیغمبر اُمی پر جو خدا پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ

کسی شخص کا اپنی طرف سے کسی کو ملک کا اختیار چلانے کیلے منتخب کرنا یہ آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے جو کہ غلامی اور بنڈیج کی ایک قسم ہے۔ایسے اقدامات رسول محمد کو بھیجے گئے اصل مقصد کے بھی خلاف ہے۔جیسا کہ اوپر کی آیت سے واضح ہے۔رسول اللہ کبھی بھی اپنے اس پیغام کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے۔جو آپ لے کر آئے۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ شدید مخالفت کا اظہار کرتے ہیں جب عمر کو ابو بکر نے خلیفہ منتخب کیا اور جب عمر نے بھی عثمان کو خلیفہ منتخب کیا۔انہوں  نے جان لیا کہ یہ قرآن و سنت کے کلاف ہے۔کتنی  جہالت ہے یہ سوچنا  کہ اللہ تعالی انسان کو ایمان لانے  یا نہ لانے کی آزادی دے  لیکن انسان کو خدا اس بات کی آزادی نہ دے کہ وہ اپنا لیڈر یا خلیفہ خود منتخب نہ کرے۔اس لیے یہ پیغام جو غدیر  کے مقام پر کے خطبہ  غدیرمیں  رسول اللہ نے دیا،و ہ ایسا  رسول  ہے آزادی،رہائی اور عدل و انصاف کا۔آپ نے تاقیامت  اپنی قوم کیلے معرفت دی  امام و ولی کا،جو ایک محدود وقت کیلے مقر نہیں کیا اور سیاسی حاکم کا تعین کرنا بھی نہیں تھا۔
        بار خدایا! ہمیں اپنی کتاب(قرآن)  کی روشنی میں ایمان سے منور کر دے اور  تیرے احکامات(امر) پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں اپنے امام(لیڈر) علی جیسا ماڈل اور مثالی انسان بنا۔/اے خدا درود و سلام ہو،علی بن ابی طالب پر،وہ  ہمارا اچھا امام اور تیرا نیک بندہ ہے(امام قائد لنا و عبد صالح لک) ۔آمین

  

‹.

Saturday, 17 October 2015

عزاداروں کی عزاداری

موضوع بہت سے لوگوں کو نا گوار گزرے گا ۔ ہم پر تنقید کرنے کے مزید دروازے کُھل جائیں گے مگر صرف ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ہماری بات کو سنا جائے تو شاید ہماری بات میں حقیقت ضرور نظر آئے گی۔یہاں ہم اس بات کی بھی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری یہ تحریر کراچی کی عزاداری کے 
حوالے سے ہے۔

* * * * * * * * *
ہمارے ملک میں شیعوں کا ایک گروہ پایا جاتا ہے کہ جو اپنی شناخت عزادار کے نام سے کرانا پسند کرتا ہے۔ یہ گروہ اپنے آپ کو ایک اور نام سے بھی روشناس کراتا ہے اور وہ لفظ مولائی‘‘ہے ۔ شاید یہ لفظ ’’ مولائی ‘‘ انہوں نے خود ہی ایجاد کیا اور اب اردو لغت ، ارد و زبان کے ایک اور لفظ سے آشنا ہو گئی ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ لوگ اپنے لیئے بدبو دار اور جنونی کے القابات بھی پسند کرتے ہیں۔ یہ عزادار گروہ محرم سے پہلے ہی سے کافی مصروف ہو جاتا ہے کیونکہ محرم کے لیئے سیاہ لباس کا بندوبست بھی کرنا ہوتا ہے اس لیئے یہ لوگ محرم سے پہلے بازاروں میں کپڑوں کی دکانوں اور ٹیلرز کی دکانوں پر بھی کثرت سے نظر آتے ہیں۔
محرم کے آغاز کے ساتھ ہی اس گروہ کے حلیے بھی بدل جاتے ہیں ۔اب یہ لوگ سیاہ لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں ۔ان کے گریبان کھلے ہوتے ہیں تاکہ’’ علی وارث ‘‘ کا گردن میں لٹکا ہوا لاکٹ زیادہ نمایاں ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس لاکٹ کی زیارت کر سکیں۔ اس کے علاوہ ان کے ہاتھوں میں کڑے بھی ہوتے ہیں اور سرخ و سبز رنگ کے دھاگے بھی باندھے ہوئے ہوتے ہیں جس کو کلاوے کا نام دیا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض افراد پاؤں میں بیڑیاں بھی ڈالے ہوتے ہیں ۔جب ان سے ان کڑوں اور بیڑیوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم امام سجاد علیہ السلام کی تاسی کر رہے ہیں۔ ان کی امام سے اس قدر محبت دیکھ کر کہ یہ لوگ اپنے ہاتھ اور پیروں میں ہتھکڑی اور بیڑی تک پہن لیتے ہیں ہم نے ان کو یہ بھی مشورہ دیا کہ آپ لوگ اگر زیادہ محبت کا اظہار چاہتے ہیں تو سینٹرل جیل میں اپنے آپ کو قید کر لیں تاکہ امام علیہ السلام کی مکمل تاسی ہو سکے مگر ہماری اس بات پر ہم کو اپنے بارے میں کافی غلط قسم کے جملے سننے کو ملتے ہیں جن کو ہم تحریر میں بھی نہیں لا سکتے۔ شاید ہم ان کی محبت کا صحیح ادراک نہیں کر سکے ہیں۔
ہم کو تو اب ایسی خواتین عزادار بہنیں بھی نظر آنے لگی ہیں کہ جو بی بی زینب سلام اللہ علیہ کی بے پردگی پر اس قدر رنجیدہ ہیں کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ کیونکہ بی بی کا پردہ باقی نہیں رہا اس لیئے ہم کون ہوتی ہیں کہ اپنا پردہ قائم رکھیں۔یہ ہم کوئی اپنی جانب سے گھڑی ہوئی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ ہمارے ہی معاشرے کی عزادار خواتین کا جملہ ہے
۔یہ عزادار لوگ محرم کے دوران سیاہ لباس ہی میں نظر آتے ہیں ۔ مگر آپ کو یہ لوگ صرف ایک جگہ پر سفید کپڑوں میں نظر آئیں گے کہ جب یہ لوگ زنجیر زنی یا قمہ زنی کرتے ہیں کیونکہ سیاہ لباس میں ان کی پیٹھ کا خون واضح نہیں ہوتا اس لیئے اس موقع پر سفید لباس زیادہ موزوں رہتا ہے تاکہ ہر شخص کے علم میں یہ بات آجائے کہ زنجیر زنی کی گئی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری کم علمی ہو اور شاید زنجیر زنی کے بعد سفید کپڑے پہننے کا زیادہ اجر وثواب ملتاہو۔بہر حال ہم نے کبھی کسی عزادار سے اس سلسلے میں تفصیلات جاننے کی کوشش نہیں کی ورنہ شاید جو چھریاں وہ اپنی پیٹھ پر مار رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے سر پر مار دی جاتیں۔
محرم کے دوران یہ لوگ اکثر گاڑیوں میں بلند آواز سے نوحوں کی سی ڈیز بجاتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ان کو وہ نوحے زیادہ پسند ہوتے ہیں کہ جس میں زیادہ شور ہو اور جس میں جھنکار بھی تیز ہو۔گلی ، محلوں اور سڑکوں پر اکثر ان عزاداروں کی گاڑیوں سے تیز نوحوں کی آواز سنائی دے رہی ہوتی ہے اورشاید ان کی اس تبلیغ حسینی کی وجہ سے لوگوں کی کافی بڑی تعداد دائرہِ تشیعُ میں داخل ہو چکی ہو گی جس کا ابھی مکمل ڈیٹا جمع کرنا باقی ہے۔
عزاداری کے جلوسوں میں بھی یہ عزادار کافی فعال نظر آتے ہیں ۔ اور کیوں کہ یہ جانتے ہیں کہ عزاداری ،مقصد امام حسین علیہ السلام کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے اسی لیئے یہ لوگ حصولِ مقصد امام میں سبقت لے جانے کے لیئے دوسری انجمنوں سے جھگڑا کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ جو انجمن بھی جلوس میں آگے نکل جائے گی وہ امام حسین علیہ السلام کی جانب سے زیادہ فضیلت اور مراتب کی حقدار ہوگی۔
عزاداری میں ہونے والی شبِ داریوں میں یہ عزادار جوق در جوق شریک ہوکر رات بھر عزاداری برپا کرتے ہیں۔یہ شب داریاں ایام عزا کے دوران ہر شب اتوار کسی نا کسی مرکزی امام بارگاہ میں منعقد ہو رہی ہوتی ہے۔ شب داری کے دوران یہ عزادار امام بارگاہ کے اطراف میں ٹولیوں کی شکل میں گھومتے نظر آتے ہیں۔امام بارگاہ کے اطراف میں موجود وہ چھوٹی دکانیں جن پر پان و سگریٹ دستیاب ہوتے ہیں عزداروں کی خدمت کے لیئے تقریبا شب بھر ہی کھلتی ہیں کیونکہ عزادار شب بھر جاگنے اور نیند بھگانے کے لیئے پان سگریٹ کا بھی بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور ان کی خریداری میں روپیوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔کیونکہ یہ خرچ ہونے والی رقم بھی امام حسین علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کا حصہ بن جاتی ہے۔شبِ داری میں جب ان عزداروں کا کوئی من پسند نوحہ خوان نوحہ پڑھنے آجاتا ہے تو یہ لوگ امام بارگاہ میں بھی تشریف لے جاتے ہیں اور اس نوحہ خوان کی واپسی کی ساتھ ان کی بھی امام بارگاہ کے داخلی راستے سے واپسی ہو جاتی ہے اور کسی اور من پسند نوحہ خوان کا انتظار بھی شروع ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ نو جوان عزادار امام حسین علیہ السلام کے درسِ محبت کو بھی پھیلاتے نظر آتے ہیں -- یہاں ہم اپنی بات کی مزید وضاحت نہیں کریں گے کیونکہ سمجھدار لوگ ہمارے ادھورے جملے سے بھی بات سمجھ جائیں گے)
عزاداروں کی عزاداری کے حوالے سے ہم ایک اہم بات کا ذکر بھول ہی گئے تھے کہ عزاداروں کی یہ عزاداری اب ’’میچ میکنگ‘‘ کا بھی ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری خواتین عزاداروں کا بہت اہم حصہ ہے۔ اس عزاداری کے ذریعے اب شادی کے لیئے باقاعدہ رشتے بھی تلاش کیئے جاتے ہیں ۔ وہ خواتین کے جو اپنے بھائی یا بیٹوں کی شادی کے لیئے کسی لڑکی کی تلاش میں ہوتی ہیں ان کے لیئے یہ عزاداری بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے وہ مجالس اور جلوسوں میں شامل ہو کر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر لیتی ہیں ، ہم کو نہیں معلوم یہ سب عزاداری کی کس منطق کے مطابق کیا جاتا ہے شاید اگر ان خواتین سے اس بارے میں کوئی وضاحت مانگیں تو وہ یہ بھی کہہ سکتی ہیں کہ یہ سب ہم امام حسین علیہ السلام کی تاسی میں کر رہے ہیں کیونکہ امام نے تو کربلا میں اپنی
بیٹی اور بھتیجے کی شادی کی تو ہم اسی کی یاد منا رہے ہیں۔
* * * * * * * * *


ہماری یہ تحریر ان عزاداروں کے متعلق ہے کہ جن کی اکثریت ہے اور یہی عزادار اور ان کی عزاداری آج شیعت کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ ہم خود اپنے آپ کو عزادار سمجھتے ہیں اور ایسے عزاداروں کو سلام پیش کرتے ہیں جو عقل و شعور اور معرفت کے ذریعے عزاداری کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے عزاداری کا وہ چہرہ شاید قلتِ تعداد کی وجہ سے پسِ پشت چلا جاتا ہے

بشکریه  سید علی احمد برادر

اسد عاشورا اور آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی

علاقه بلتستان کی ایک بدعت اور آغا شرف الدین  کی نصیحت

"
علی عباس کو کچھ نهیں آتا تھا اگر کچھ تھوڑا بهت بھی آتا هوتا تو روضه الشھداء کے سینه کوبی میں شامل نهیں هوتے,اچھے خطیب و واعظ بنتے ,حرام پیسه وصول کر کے چند جهاز بدلتے هوئے قم سے بلتستان تک کے هوائی سفر کی سهولت حاصل نه کرتے,اسد مجالس جو اس علاقه (بلتستان )کی بدعات میں سے هیں ,ان دس روزه مجالس  میں ان کے والد کی وراثت میں پته نهیں وه ایک دو دن آئے هوں ,منبر جو منبر رسول کهلاتا هے وه خاندان کے درمیان تقسیم هے شاید جسء کا حصه خریدا بھی جاسکتا هے.

......... وه روضه شھدا میں سینه کوبی کے کام میں شریک بنے هوئے تھے  جهاں وه شباب مومنین کی پناهگاه میں تھے ,میں نے اس کی بھی شکایت کی که تمهارا کام منبر پر جا کر وعظ و نصیحت اور ھدایت کرنا تھا یا شباب مومنین کیلے سینه کوبی کرنا تھا ,تمهارا کام تعلیمات قرآن و سنت اور تاریخ اسلام بتانا تھا ,اھداف و مقاصد قیام امام حسین بتانا تھا ,سینه کوبی نهیں تھا ,لیکن اس کو گویا یه بات سنائی هی نهیں دیتی تھی.
"

آغا علی شرف الدین

خطداحیون,صفحه 204

شیخ جعفری صاحب اور آغا علی شرف الدین موسوی

شیخ جعفری قائد بلتستان سے میرے اختلافات کی وجه

"
همیں ابتدائی تعلیم میں یه سکھایا گیا تھا که ھم مسلمان هیں اور ھماری کتاب قرآن هے,اور نبی محمد ص هیں ھمارے باره امام هیں اور بارھویں امام غیبت میں هیں,اس عقیدے کے تحت اسماعیلیوں کے امام اور آغاخانیوں سے همدردی اور یکجهتی کا کوئی جواز نهیں بنتا تھا خاص کر ان سے جن کے پاس اس وقت شریعت اسلام منسوخ و معطل هے.بلتستان میں اسماعیلیوں کو پزیرائی دینے والے اور بسانے والے شیخ محمد غروی کا پی پی پی کو انتخاب کرنے کے بعد یه دوسری وجه تھی کی میں ان کو پسند نهیں کرتا تھا,لیکن یه نهیں سوچ رھا تھا که ان کے جانشین شیخ جعفری بھی ایسے هی هونگے,بھرحال صرف زبانی حد تک محدود مواقع پر میری مخالفت شیخ جعفری کو ناگوار گزری........!!

"

خطداحیون,172

امام مھدی اور مولانا مودودی

امام مھدی سے متعلق مودودی صاحب کا تجزیہ
-------------------------------------------------------


"یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ مہدی کے نام سے دین میں کوئی خاص منصب قائم کیا گیا ہے جس پر ایمان لانا اور جس کی معرفت حاصل کرنا ویسا ہی ضروری ہو جیسا انبیاء پر ایمان لانا، اور اس کی اطاعت بھی شرط نجات اور شرط اسلام و ایمان ہو۔ نیز اس خیال کے لیے بھی حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ مہدی کوئی امام معصوم ہوگا دراصل یہ معصومیت غیر انبیاء کا تخیل ایک خالص شیعی تخیل ہے جس کی کوئی سند کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے۔

یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و اسلام کا مدار ہے اور جن امور پر انسان کی نجات موقوف ہے، انہیں بیان کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ اور قرآن میں بھی ان کو کچھ اشارۃ و کنایۃ بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کو کھول دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ان علینا للھدیٰ لہذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو اس کا ثبوت قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمان صحت ہے نہ کہ علم یقین اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اس خطرے میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کرسکتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر و ایمان کا فرق واقع ہوتا ہو انہیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کردیا جائے۔ ایسے امور کی نوعیت ہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صاف صاف اپنی کتاب میں بیان فرمائے، اللہ کا رسول انہیں اپنے پیغمبرانہ مشن کا اصل کام سمجھتے ہوئے ان کی تبلیغ عام کرے اور وہ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے ہرہر مسلمان تک پہنچادیئے گئے ہوں۔

اب مہدی کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہر حال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام میں اس کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہو۔ یہ حثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوچار آدمیوں سے اس کو بیان کردینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آپ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ درحقیقت جو شخص علوم دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ باور نہیں کرسکتا کہ جس مسئلے کی دین مین اتنی بڑی اہمیت ہو اسے محض اخبار احادیث پر چھوڑا جاسکتا تھا اور اخبار احاد بھی اس درجہ کی کہ امام مالک اور امام بخاری اور امام مسلم جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے ان کا لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔"
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی 
رسائل و مسائل، جلد اوّل

http://www.scribd.com/doc/19054761/65-Rasayl-wa-Masayl-1-By-Maudud-